کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 43
مولانا سلفی رحمہ اللہ نے تقریباً پچاس سال تک صبح کے درس قرآن کا التزام فرمایا۔ سینکڑوں کو ترجمہ قرآن پڑھایا۔ دوسری علمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تدریس قرآن و حدیث کا مشغلہ برابر جاری رکھا۔ (گوجرانوالہ)کے مدرسہ محمدیہ اور مدرسہ تجوید القرآن چوک نیائیں تو مولانا کی یادگار ہیں ہی۔ الجامعۃ السّلفیہ(فیصل آباد)بھی دراصل مولانا سلفی رحمہ اللہ ہی کی یادگارہے۔ ان کے علاوہ بھی مولانا کے ذریعہ ہزاروں روپے سالانہ مدارس و مساجداہل حدیث کے لیے جاتے تھے۔ مولانا کی ذات گرامی کے باعث گوجرانوالہ جماعت اہل حدیث کا بہت بڑا مرکز تصور ہوتا تھا۔ ہر جماعتی ضرورت کے لیے مولانا کی ذات ہی مرجع ہوتی تھی اور حقیقی ضرورت کو ظاہرسے زیادہ باطن میں نوٹ فرما لیتے تھے اور ہر ممکن کوشش سے دریغ نہ فرماتے تھے۔
مولانا کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ لکھنے میں تیز تھے۔ اتنےگو نا گوں کے باوجود بعض دفعہ ایسا بڑا اور عمدہ تحقیقی مقالہ تحریر فرماتے کہ اہل علم حیران رہ جاتے۔ حضرت مولانا اس شعر کے پوری طرح مصداق تھے۔
وماكان قيس هلكه هلك واحد
ولكنه بنيان قوم تهدما
اندریں حالات حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال سے جماعت اہل حدیث کو جو دھچکا لگا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق بخشے گا۔
بارالہٰی! اسی عاشقِ اسلام،عاشقِ سنت رسول، کشتہ محبت محدثین، شیفۃ حدیث واہل حدیث،غریبوں کےغم گسار،ملت اسلامیہ کے جاں نثاراپنے بندےکو جنت الفردوس میں انبیاء، شہداء اور صالحین کے ساتھ مقام علیا عطافرما! وحسن اولئک رفیقاً. [1]
زعیمِ ملت علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ کےتاثرات
زعیم ملت علامہ حافظ احسان الہٰی شہید رحمہ اللہ نے 8 مارچ 1968ء کے الاعتصام کے اداریہ میں مولاناسلفی رحمہ اللہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ اس اداریہ کے بعض اقتباسات پیش کیے
[1] الاعتصام یکم مارچ 1968ء