کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 40
واذکرفی الکتاب اسماعیل جنازےکاآنکھوں دیکھاحال مولانا حافظ عبدالحق صدیقی رحمہ اللہ خطیب اعظم ساہیوال19/اپریل68ء کو ایڈیٹر الاعتصام کے نام تحریر فرماتے ہیں۔ ’’یہ جانکاہ خبر شام کو فون پر میاں فضل حق صاحب نے سنائی جس کے سنتے ہی میں سکتے میں آ گیا۔ چند لمحے بعد عازم (گوجرانوالہ) ہوا۔ گیارہ بجے کے قریب پہنچا تو (گوجرانوالہ) کے در و دیوار بھی گریہ کناں معلوم ہوئے۔ صبح ہوتے ہی عاشقانِ توحید و سنت کا ایک سیلاب تھا جو ملک کے ہر جانب سے چلا آرہا تھا۔ گھر کے سامنے ہی مدرسہ میں دیدار عام کے لیے چارپائی رکھ دی گئی۔ جس کی بھی نظر پڑی دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ جن لوگوں کو بہت صابر سمجھتے تھے وہ بھی صبر کا دامن چھوڑنے لگے۔ ہر طرف سے آہ و زاری، سسکیوں اور دعائے مغفرت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو گردونوح سے دلدوز نالہ و شیون کی صدائیں سنی گئیں۔ چھوٹے بچے بھی بلک بلک کر رو رہے تھے۔ شہر میں کاروبار بالکل بند تھا۔ مولانا کے پروانوں کا ایک سمندر تھا جوجنازے کے ہمراہ سٹیڈیم کی طرف جا رہا تھا۔ اسٹیڈیم پہنچ کر نماز سے پیشتر صبر و شکر و نظم وضبط کی تلقین کے ساتھ میں نےکہا اے لوگو! عاشقانِ توحید و سنت ہونے کا ڈھب اس اللہ کے ولی سے سیکھو۔ اس دنیا سے جا رہا ہے۔ کسی کو نہ اس کے ہاتھ سے شکایت ہے نہ زبان سے نہ جیب پر خیانت کا شبہ ہے۔ یہ دیکھواس کے لبوں پرتبسم ہےاور ہم آہ و فغاں میں مشغول، گلستان مصطفیٰ کا ایک پھول اور ٹوٹ گیا ہے۔ (گوجرانوالہ)کےوسیع و عریض سٹیڈیم میں تل دھرنےکو جگہ نہ تھی۔ اردگرد کی سڑکوں پر ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ قبرستان تک ابھی پہنچے بھی نہ تھے کہ دوتین مختلف مضامین کے مطبوعہ پمفلٹ راستے ہی میں اسماعیلی شمع کے پروانے تقسیم کر رہے تھے جن کوپڑھ کر سنگ دل سے