کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 36
کرنے کے لیے اس علم و بصیرت اور اور اس اخلاص و تفقہ کے لوگ تیار نہیں ہو رہے۔ [1] شورش کاشمیری نے چٹان میں یوں صف ماتم بچھائی ’’یہ خبر سنتے ہی دل کانپ اٹھا کہ امیر جماعت اہل حدیث حضرت مولانا سلفی رحمہ اللہ 20/فروری کو انتقال فرما گئے۔ موت سے مفر نہیں۔ ہر انسان جو اس دنیا میں آیاہے۔ ایک نہ ایک دن ضرور اسے اللہ کے ہاں جانا ہے۔ لیکن جب کوئی منفرد ہستی داغِ مفارقت دے جاتی ہے تواس کی سیرت کے نقوش دل ودماغ میں متحرک ہوکر خلاکا ایک عجیب احساس پیدا کرتے ہیں۔ مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ یقیناً قرنِ اول کے مسلمانوں کی جیتی جاگتی تصویرتھے جن کے وجود میں علم و فقراور غیرت و حمیت سمٹ آئے تھے۔ معاشرےکے افلاس پر طبیعت جھنجلاتی ہے کہ علم اوباشوں کے نرغے میں اور دین پیشہ وروں کے جھرمٹ میں ہے تو دل کہتا ہے کہ اس آبادی سے تو ویرانہ اچھا۔ لیکن جب نگاہیں اس وجاہت سے خال خال انسانوں پر اٹھی ہیں جس وجاہت کا نمونہ مولانااسماعیل تھے تو طبیعت کو اطمینان ہوتاہےکہ خداکی زمین ابھی اللہ والوں سے خالی نہیں ہوئی۔ مولانا بظاہر ایک دھان پان اور منکسر المزاج انسان تھے لیکن حقیقتاً وہ علم کا سر چشمہ اور غیرت کا پہاڑ تھے۔ بادشاہوں کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مسجدوں اور مدارس کے وقارکو دو چند کیا۔ وہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجادے کی آبرو نہیں گردانتے تھے۔ 21/فروری کو 2بجے جب ان کا جنازہ اٹھا توگرد و پیش کی چھتوں اور چوباروں سے عورتوں سے نالہ ہائے ماتم کے علاوہ تقریباً ایک لاکھ ماتم گساروں کے چہرے اشکبار تھے۔ نظرکے سامنےتھا کہ اللہ والوں کا جنازہ یونہی اٹھا کرتا ہے۔ ایک خاص احساس جو دل پرنقش ہوتا رہاوہ نئی نسل کےنوجوانوں کا درد تھا۔ کتنےہی کالجسٹس تھے جواس فقیر کجکلاہ کےغم میں نڈھال چلے جا رہے تھے اور بیشتر کے تو آنسو ہی نہ تھمتے تھے۔ پھر جس درد سے نماز جنازہ پڑھائی گئی اور جس گداز سےجنازہ پڑھا گیا وہ انتہائی رقت انگیز تھا۔ خدا گواہ اس قسم کے جنازےان حاکموں اور شاہوں کوبھی میسر نہیں آئےجواناربکم الاعلیٰ کا ناقوس پھونکتے اور خدا کی مخلوق میں اپنی خدائی کا اعلان کرتے ہیں۔ [2]
[1] وز نامہ کوہستان 21 فروری 1961ء [2] ۔ ہفت روزہ چٹان 26فروری 1968ء