کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 33
فیض کا اندازہ اس سے فرمائیے کہ جب حضرت گوجرانوالہ تشریف لائے تھے تو شہر میں صرف ایک مسجد تھی اور سات آدمیوں کے وجود کا نام جماعت اہل حدیث تھا۔ لیکن اپنی وفات سے چند دن پیشتر54 ویں مسجدکا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا اور آبادی کے تناسب سے تو جماعت شاید پورے پاکستان میں بے مثال ہو۔ [1] بہرحال اگر اختصار کے ساتھ آپ کے محاسن پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مولانا کو اپنے زمانے کے اکثر معاصرین پر برتری حاصل تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ درویشی،سادگی، فروتنی اور تواضع کا مرقع تھے۔ قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدارکے حامل تھے۔ ان کا آئینہ قلب صاف تھا۔ مومنانہ زندگی گزار کر اس دنیاسے رخصت ہوئے۔ گمنامی کی صفوں سے اٹھے اور اپنی سعی و جستجو،عمل پیہم، خلوص،مسلسل محنت، لیاقت و قابلیت اور علمی لگن سے شہرت کے آسمان تک گئے۔ بیماری اور وفات حضرت مولاناکے فرزند ارجمند پروفیسر محمد صاحب رقمطراز ہیں کہ والدگرامی چند سالوں سے اعصابی مریض چلے آرہے تھے۔ تاہم حالت کچھ ایسی تشویشناک نہ تھی پس25/ذوالقعدہ 1387ھ بمطابق20/فروری1968ء منگل کے دن نماز عصر کے بعد یکایک طبیعت بگڑی اور راہ گزر عالم جاوداں ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ25ذیقعدہ کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تھی۔ [2]
[1] تاریخ اہل حدیث‘ گوجرانوالہ‘ بابا عبداللہ اہل حدیث ص 25۔  [2] مجلّہ مہک گوجرانوالہ ص۔ 435