کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 32
حضرت سلفی رحمہ اللہ کی عادات و خصائل حضرت کی وفات کے بعد گوجرانوالہ کے موقر جریدہ قومی دلیرکی ایک خصوصی اشاعت مورخہ یکم مارچ 68ء میں مولانا کے صاحبزادے جناب محمود بن اسماعیل نے’’آں قدح بشکست و آںساقی نہ ماند‘‘کے عنوان سے آپ کی عادات و خصائل اور محاسن اخلاق پر روشنی ڈالی تھی۔ حضرت کی قناعت کی متعلق فرماتے ہیں کہ ابتدامیں حضرت کی تنخواہ صرف پچیس روپےتھی مگر کبھی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ نہیں فرمایا۔ بارہا زیادہ تنخواہ پر ملک وبیرون ملک سے پیشکش ہوئی تو فرماتے کہ منڈی یا مارکیٹ میں نہیں آیا ہوں کہ میری قیمت مقررکی جائے۔ علم کے ساتھ حلم کا جوہر بھی حضرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ایک دفعہ مولانا حاجیوں کو رخصت کرنے کے لیے لاہور تشریف لے گئے۔ نماز کا وقت ہو گیا۔ سٹیشن کے بالا میدان میں جماعت کرانے لگے تو ایک بوڑھے نے کہا کہ میری نماز آپ کے پیچھے نہیں ہوتی۔ آپ نے رومال اٹھا کر کندھےپر ڈالا اور پیچھے ہٹ گئے اور کہا بابا جی آپ جماعت کرائیں میری نماز آپ کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ وہ بوڑھا شرمندہ ہو گیااور معافی مانگی اور پھر اصرار کر کے حضرت کی اقتدا میں جماعت ادا کی۔ ہم عصرعلماء سے آپ کا برتاؤمثالی تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھے اور اثر قبول نہ کرے۔ دوران جیل آپ کی معیت مولانا ابو الحسنات کو نصیب ہوئی۔ آپ مسجد وزیر خان کے امام اور پکے بریلوی تھے اور اہل حدیث کو کافر تک کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ مگر جب والد گرامی سے ملاقات ہوئی تو ایسے گرویدہ ہوئے کہ کئی دفعہ گوجرانوالہ میں ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ حضرت میں بعض جواہر ایسے تھے جو ہم عصر علماء میں نہ تھے۔ مردم شناس ایسے تھے کہ دیکھتے ہی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔ خود پسندی اور نخوت سے نفرت تھی۔ [1] اخلاص اور بے مثال مستقل مزاجی گوجرانوالہ تشریف لانے پر اہل حدیث ہونے کی پاداش میں ہر طرح کی مخالفت کا سابقہ پیش آیا۔ اور بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا،لیکن آپ نے استقلال،قناعت،جرأت اور اخلاص سے پوری نصف صدی گزار کر علماء کے سامنے ایک درخشاں مثال قائم کی۔ آپ کی برکات اور
[1] ہفت روزہ قومی دلیر یکم مارچ 1968ء