کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 31
عام معمولات زندگی حضرت مولانا اتنی مصروف زندگی گزارتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے کہ آپ ان فرائض سے کیسے عہدہ برآ ہوتے تھے۔ مسجد کے خطیب اور پانچوں نمازوں کے امام بھی تھے۔ آپ نے مدت العمر قرآن کا درس اس اہتمام سے دیا کہ ناغہ شاذ و نادر ہی ہوا ہو۔ تبلیغی اور تنظیمی سفر پر تشریف لے جاتے تو کوشش یہی فرماتے کہ سفر جلد ختم ہو،تاکہ درس قرآنِ حکیم کے تسلسل میں فرق نہ پڑے۔ اس درس کے بعد تجار اور کاروباری لوگوں کی ایک جماعت آپ سے باترجمہ قرآن مجید پڑھتی تھی۔ بعد ازاں مدرسہ محمدیہ کے اسباق شروع ہو جاتے تھے اور آپ بہت اہم کتابیں خود پڑھاتے تھے۔ اثنائے مصروفیت میں ہی مضمون نویسی،مقالہ نگاری، خطوط کے جواب اور فتویٰ تحریر فرماتے تھے۔ شہر کی سیاسی و معاشی تحریکوں میں حصہ بھی لیا جاتا تھا۔ ملک کی تحریکوں میں پورے انہماک کے ساتھ حصہ لیتے تھے اور حوادث میں باحسن وجوہ خدمات سرانجام دیتے تھے۔ [1] خطابت میدان خطابت کے آپ ایسے شاہسوارتھے جن کی نظیر ہماری دینی جماعتوں میں شاید کوئی پیش نہ کر سکے۔ آپ کی تقریر کا اسلوب ابتدا ہی سےیگانہ اور منفرد تھا۔ 1921ء کے بعض سامعین اسی بات کے شاہدہیں کہ اس وقت بھی آپ کا اندازِ بیان نرالا تھا۔ آخری دور میں تو خصوصاً پوری کی پوری تقریر حشو و زوائید سے پاک نیز بے ربط جملوں، غلط تلفظ اور وضعی حکایتوں سے پاک ہوتی تھی۔ دوران تقریرآواز کا زیر و بم موزوں الفاظ کا انتخاب اور پھر عربی وفارسی اشعارکی ایسی آمد کہ عوام و خواص جھوم جھوم جاتے تھے۔ [2]
[1] ۔ روایت پروفیسر محمد صاحب ابن شیخ سلفیؒ [2] مجلّہ الاعتصام۔ مضمون حافظ احمد شاکر بعنوان مخدوم العلماء 22/اگست 1969ء