کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 30
صاحب محدث نے نصرت العلوم (نصرۃالاسلام) کے نام سے مدرسہ جاری فرمایا۔ [1]صرف و نحوکی ابتدائی کتابیں مولوی عمر الدین صاحب مرحوم سے پڑھیں جو اسی مدرسہ میں پڑھاتے تھے۔ نحو کی اوپر کی کتابیں،ابن عقیل،شرح جامی،الفیہ۔ آجردمیہ حضرت حافظ صاحب سے پڑھیں۔ حدیث از اول تا صحیحین حضرت حافظ صاحب سے پڑھی۔ حضرت حافظ صاحب مرحوم سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے اکابر تلامذہ میں سے تھے۔ شیخ حسین بن محسن انصاری رحمہ اللہ سے بھی آپ کو اجازت حدیث تھی۔ مولانا عبدالحق بنارسی رحمہ اللہ شاگرد امام شوکانی رحمہ اللہ سے بھی شرف تلمذ تھا۔ تفسیر بیضاوی حضرت مولانا محمد ابراہیم میر رحمہ اللہ سیالکوٹی سے پڑھی۔ ادب اور معقولات کی کتابیں مولانا محمد حسن (امرتسری) کے مدرسہ میں مختلف اساتذہ سے پڑھیں۔ شرح وقایہ حضرت مفتی محمدحسن صاحب سے پڑھی۔ مطول،مختصرالمعانی،ہدایہ اولین و آخرین علامہ محمد حسین ہزاروی سے پڑھی جو مدرسہ غزنویہ امرتسر میں پڑھاتے تھے۔
1921ء سے 1930ء تک حضرت مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کےحسب حکم مناظرات کی طرف توجہ رہی۔ قادیانی،عیسائی اور چکڑالوی حضرات سے کئی جگہ گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مرض سے نجات دیدی۔ رسمی مناظرات بالکل ترک کر دیئے۔ اب طبیعت کی ان مناظرات کے ساتھ قطعاً موزونیت نہیں۔ اوراس راہ کو باعث تسکین سمجھتا ہوں۔
1921ء گوجرانوالہ جامع مسجدمیں مقیم ہوں۔ درس و تدریس کا مشغلہ مسلسل چل رہا ہے۔ مدرسہ محمدیہ کے نام سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ شعبہ حفظ و تجویدبھی ہے۔ اس وقت مدرسین کی تعدادتقریباً 9 ہے۔ حجیت حدیث کے متعلق چند رسائل لکھے ہیں۔۔۔۔ (1)حدیث کی تشریعی اہمیت(2)جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(3)مقام حدیث قرآن کی روشنی میں نیز تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی وغیرہ۔ ایڈیٹری بالکل نہیں کی۔ خطابت کا سلسلہ گوجرانوالہ جامع اہل حدیث میں مسلسل جاری ہے۔ اب بھی’’كبرني موت الكبري‘‘کے مصداق تعلق قائم ہے۔ دعا ہے کہ اسی راہ سے اللہ دین کی خدمت اور کتاب وسنت کی اشاعت کا موقع بہم پہنچا دے اور انجام بخیر ہو۔ [2] والسلام
فقط
(محمد اسماعیل کان اللہ لہ)
[1] ایک روایت میں نصرۃ العلوم اور تذکرہ علمائے حدیث میں نصرۃ الاسلام مدرسہ کا نام مذکور ہے۔
[2] ماخوذ ہفت روزہ الاعتصام12ستمبر1969ء