کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 28
مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز علیہ الرحمۃ نے شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد کی معرفت آپ کو مدینہ منورہ بلوا بھیجا۔ مگر آپ نے گوجرانولہ میں قیام کو ترجیح دی اور اپنی جگہ حضرت العلام جناب مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کو بھجوا دیا۔ [1] گوجرانوالہ کی جامع اہل حدیث میں آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ یہ مدرسہ نصف صدی تک نہ صرف گوجرانوالہ اور اسکے مضافات بلکہ متحدہ پنجاب کے دور دراز کے طلبہ کو علوم اسلامیہ اور ادب عربی سے لبریز کرتا رہا۔ اس مدرسہ میں موصوف نہ صرف خود پڑھاتے تھے بلکہ وقت کے بہترین اساتذہ متعین فرماتے تھے۔ ملک کے بڑے بڑے فاضل یگانہ لوگ اس مدرسہ محمدیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ حضرت کے تلامذہ کے عنوان سےان کے حالات زندگی اس مقالہ میں تفصیل سے دئیے گئے ہیں۔ قومی و جماعتی خدمات اسی سلسلہ میں مناسب ہوگا کہ جریدہ الاعتصام لاہورکے اداریہ کا ایک ٹکڑا نقل کر دیا جائے جو یکم مارچ1968ء کو شائع ہوا۔ ’’ گزشتہ نصف صدی میں جماعت اہل حدیث کی کسی بھی قسم کی مذہبی و سیاسی سرگرمی میں مولانا محمد اسماعیل صاحب بدستور ایک اہم عنصرکی حیثیت سے شامل رہے۔ نوجوانی میں سعی و ہمت کا یہ حال تھا کہ1924ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا سالانہ اجلاس کرا ڈالا جس کے صدر استقبالیہ ہمارے بزرگ مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ تھے۔ ہمارے مولانا کو جماعت منظّم کرنے کی بڑی دھن تھی۔ انجمن اہل حدیث پنجاب کا قیام عمل میں آیا تو اس میں مولانا مرحوم کا بہت دخل تھا۔ 1931ء میں شاہ محمد شریف گھڑالوی رحمہ اللہ کی سربراہی میں جمعیت تنظیم اہل حدیث پنجاب وجود میں آئی تو اس کے روح رواں آپ ہی تھے۔ چنانچہ اس کا دفتر بھی مولانا کی سرپرستی میں گوجرانوالہ میں تھا، ناظم اعلیٰ حضرت مولانا قاضی عبدالرحیم تھے۔ 1946ء میں اہل حدیث کانفرنس دہلی میں بلائی گئی تو آپ اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعدجہاں تک مغربی پاکستان کی جمعیت اہل حدیث کا تعلق ہے،یہ مولاناسلفی رحمہ اللہ کی مساعی و شبانہ روز محنت وہمت کی رہین منت ہے، مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو ملکی سیاست کی دلدل سے نکال کر جماعت کی سربراہی کے لیے مولانا نے ہی آمادہ کیا تھا۔ پھر آخر تک حضرت موصوف کا ساتھ نبھایا۔
[1] ۔ مجلّہ’’مہک‘‘ گوجرانوالہ ص432