کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 27
پاکستان کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی ہوئے) سے فنون کی کتابیں پڑھیں۔ آپ مفتی صاحب موصوف سے بہت متاثر تھے۔ فنون میں ان کے ذوق اور طریق تدریس کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ فنون میں میری دلچسپی اور درک حضرت مفتی صاحب کے طریق تدریس کا فیض ہے۔
سیالکوٹ میں آمد
سیالکوٹ زمانہ قدیم سے علم و فضل کا گہوارہ رہا ہے۔ اس سرزمین میں علامہ عبدالحکیم رحمہ اللہ سیالکوٹی اور نابغہ روزگار علامہ اقبال جیسی ہستیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ امرتسر سے فراغت کے بعد حضرت سلفی رحمہ اللہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ ان دنوں وہاں حضرت علامہ محمد ابراہیم میر رحمہ اللہ سیالکوٹی کی علمیت کا چرچا تھا۔ مولانا سلفی نے ان سے بھی کسب فیض کیا۔
جس طرح زمانہ قدیم کے علماء علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے دور دراز کا سفر کرتے تھے اسی طرح حضرت سلفی رحمہ اللہ نے کئی قدیم دینی مراکز کے سفر کیے اور ان سب مدارس سے علمی جواہراکٹھے کیے۔ حضرت سلفی کا سلسلہ علم سند کے لحاظ سے چوبیس واسطوں سے جناب شارع علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
حضرت علامہ ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ مولانا سلفی رحمہ اللہ کے والد کے ہم نام تھے انہوں نے حضرت سلفی رحمہ اللہ کی ذہانت و فطانت کو آن واحد میں پہچان لیا اور انہیں اپنا روحانی بیٹا قرار دیا۔ علامہ سیالکوٹی مرحوم نے اپنی عظیم الشان لائبریری مولانا سلفی کی تحویل میں دیدی اور اس طرح مولانا مرحوم کو قدیم تفاسیر اور نادر علمی کتابوں سے استفادہ کا موقعہ حاصل ہو۔
گوجرانوالہ میں تقرر
آپ1339ھ بمطابق1921ء میں بمعیت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ گوجرانوالہ آئے۔ ان ایام میں گوجرانوالہ کی جماعت اہل حدیث چند نفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت سیالکوٹی نے جماعت کے اراکین سے کہا کہ میں ایک در شہوار تمہارے سپرد کرنے آیا ہوں اس کو حفاظت سے رکھنا۔ اس کے بعد آپ نے شہر گوجرانوالہ کو ایسا وطن بنا لیا کہ اس شہر میں منبر و محراب کو الحمدللہ چار چاند لگا دئیے۔ گزشتہ نصف صدی میں کئی انقلاب آئے۔ مگر آپ اپنے جادہ مستقیم پر رواں دواں رہے۔ آپ کے پائے عزیمت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ مقام و مرتبہ کی چاہت اور دولت کی طلب آپ کو اپنے مقام سے نہ ہلا سکی۔