کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 25
مولانا محمد ابراہیم کے ہاں ایک فرزند ارجمندکی ولادت کی بشارت دی گئی۔ اس بشارت کا ذکر حضرت حافظ صاحب نے اس سند میں بھی کیا ہے جو تحصیل علم کے بعد انہوں نے مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کو عطا فرمائی تھی۔ اس سند میں حافظ صاحب نے مولانا کو’’الولدالصالح‘‘کے نام سے یاد کیا ہے۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ کی پیدائش1314ھ بمطابق1895ء تحصیل وزیرآباد کے قریب ایک گاؤں ڈھونیکے میں ہوئی۔ مولانا محمد ابراہیم اور مسلک اہل حدیث استاذِ پنجاب حضرت مولانا حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ وزیرآبادی سے تلمذ اور مجالست کا اثر یہ ہوا کہ مولانا محمد ابراہیم صاحب نے حنفیت کی بجائے مسلک اہل حدیث اختیار کر لیا۔ ان کے سلفی العقیدہ ہونے کی بنا پر ان کو گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ وہ کئی برس اپنے گھر میں نماز ادا فرماتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان کو عزیمت سے نوازا تھا اور متوکل تھے۔ توحید کی برکات کی وجہ سے انہوں نے اس ناروا مقاطعے کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ صاحب حیثیت زمیندار تھے۔ صاحبِ فن کاتب تھے اور اعلیٰ پائے کے طبیب بھی تھے۔ طبیب حاذق ہونے کی وجہ سے گاؤں والے آپ کے محتاج تھے۔ آخرکار یہ مقاطعہ اپنی موت آپ ہی مرگیا اور آپ گاؤں کی مسجدمیں جا کر نماز ادا کرنے لگے۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب پر تعلیمِ حدیث کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی کتابت کو صرف قرآن و حدیث تک محدود کر دیا۔ ان کی کتابت کے شاہ کاروں میں ایک مولانا وحیدالزمان کے ترجمہ والا قرآن مجید ہے۔ دوسرا متداول شہکار تحفتہ الاحوذی ہے۔ یہ ترمذی شریف کی شرح ہے۔ یہ شرح جناب مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔ اس کے چار حصے ہیں۔ مسودات ان کے پاس مبارکپور سے آئے تھے۔ پھر وہ کتابت شدہ کاپیاں بذریعہ ڈاک واپس بھیجتے تھے۔ مبارک پور (یو۔ پی۔ انڈیا) سے مسودات کی ڈہونیکے آمدکی صرف ایک وجہ معلوم ہوتی ہے کہ مولانا محمد ابراہیم صاحب عالم بھی تھےاور کاتب بھی۔ اس وجہ سے کتابت کی غلطیاں نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو مؤلف کی فروگذاشت کو درست کر دیتے تھے۔ ان کی کتابت کے نمونے کے طور پر تحفتہ الاحوذی کے ایک صفحہ کا فوٹو سٹیٹ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی صفحہ پر انہوں نے اپنا نام بھی تحریر کیا ہے۔