کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 19
مولانا کے ذاتی دوست تھے۔ وہ اکثر مولانا کا تذکرہ گھر میں کیا کرتے تھے کہ(گوجرانوالہ) میں ایک ایسی شخصیت ہے جس کے کارناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ مصنف بھی ہے۔ مناظر بھی،مفسر بھی،اعلیٰ درجہ کے مفتی بھی۔ واعظِ خوش بیاں بھی اور نہایت سلیقہ شعار طناز بھی۔ عالی کردار بھی اور اخلاقِ حسنہ کی دولت سے مالامال بھی وہ ہمہ اوصاف سے موصوف تھے اور جامع الحیثیات شخصیت کے مالک تھے۔ جماعت کے علماء میں وہ واحد شخصیت تھے جن کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیاں نہایت حسنِ ترتیب سے جمع فرما دی تھیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جو مولانا کا سن وفات ہے وہ میرا سن پیدائش ہے۔ اس لیے میں حضرت مولانا رحمہ اللہ کی نہ تو زیارت سے مشرف ہو سکی اور نہ براہِ راست ان کی زبان مبارک سے کچھ سن سکی۔ اب بڑی زبردست خواہش تھی کہ ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے حالاتِ زندگی میسر آئیں تو ان سے استفادہ کروں۔ مگر بساآرزو کہ خاک شدہ کے مصداق اتنی بڑی جماعت ایسی جامع شخصیت کے بارےمیں کتابچہ بھی شائع نہیں کرسکی۔ بس یہ جذبہ محرکہ تھا کہ میں نے ایم۔ اےعلوم اسلامیہ کے لیے مقالہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات پر تحریر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مواد کی فراہمی کے لیے مقالہ نگارکو جن مشکلات سے گزرنا پڑا یہ تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں۔ اسلامی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے میں براہ راست مولاناکے اعزہ واقربا،ان کے تلامذہ اور ان کے عزیز دوستوں سے بالمشافہ معلومات حاصل نہ کر سکتی تھی۔ چنانچہ میں نے جماعت اہل حدیث کے جرائد و رسائل کی طرف توجہ کی۔ اپنے والد گرامی جناب پروفیسر محمد ارشد جو اس مقالہ کے لیے میرے گائیڈ بھی تھے ان کی رہنمائی میں بعض سوانحی خاکے اور تذکرے اکٹھے کیے۔ ان میں بہت سی کتابیں ایسی تھیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ میں اپنے والد گرامی کے دوست جناب ضیاءاللہ کھوکھر صاحب کی تہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے کمال شفقت و مہربانی سے پاکستان و ہندوستان کے جرائد کی فائلیں استفادہ کے لیے میرے حوالےکر دیں اور مولاناکے قائم کردہ مدارس کے متعلق مطبوعہ مواد بھی مرحمت فرمایا۔
میں شکر گزار ہوں مولانا کے صاحبزادہ جناب حکیم محمودصاحب کی جنہوں نےمولانا کے خاندان کے حالات کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور بعض سوانحی تذکرے بھی مہیا کیے۔ میں ادارہ الاعتصام کے جناب حافظ احمدشاکر صاحب،علیم ناصری صاحب ودیگربزرگوں کی بھی