کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 18
توحید کا اقرار کر لیا اور سعادت عظمیٰ کو پا لیا۔ اس بنا پر علماء اجر جزیل کے مستحق ہو گئے۔
دراصل اس سعادت کی طرف راہنمائی انہیں اصل علم کی وساطت سے ہوئی۔ اس لیے ان کے ساتھ اہل علم بھی ثواب میں برابر کے شریک ہیں۔
اسی طرح بخاری شریف میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
’’ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ‘‘
اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ [1]
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ لباس و خوراک سے بڑھ کر علم کے محتاج ہیں۔ اس لیے کہ لباس کی کبھی کبھار اور کھانے کی دن میں ایک دوبار ضرورت پڑتی ہے۔ مگر علم تو ہر سانس پر ضروری ہے۔ انزل من السماءماء۔۔۔۔ [2] اسی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے علم کو آسمان سے بارش سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں (بارش۔ علم) منافع اور معاش میں ممد ہیں۔ پھر دلوں کو وادیوں سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح وسیع وادی میں پانی کی مقدار بہ نسبت چھوٹی کے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جس قدررول بڑاہوگا وہ زیادہ علمی مقدارکو محیط ہوگا۔
مسلم شریف میں حضرت سہل بن سعدروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔ ’’لان یھدی اللّٰه بک رجلاًواحداًخيرلك من حمرالنعم‘‘[3] یعنی اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک آدمی کو بھی ہدایت نصیب فرمادے تو یہ بات تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
اسی حدیث شریف میں بڑے شاندار الفاظ سے علم کی توصیف فرمائی گئی ہے نیز اس سے عالم کی فضیلت بھی متشرح ہورہی ہے کہ ایک آدمی کی ہدایت ان سرخ اونٹوں سے بہتر ہے جو عربوں کی متاعِ عزیزہے۔ تو اندازہ لگائیے کہ اس عالم کے درجات مراتب کس قدر بلند ہوں گے جس کے ہاتھ پر سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بندگانِ خداتائب ہوکر ہدایت حاصل کرتے ہیں۔
میں(راقمہ) حافظ ابن قیم کی العلم و العلماء سے ہی از حد درجہ متاثر تھی اور اکثر علماء کے تذکرے زیر مطالعہ رکھتی۔ لیکن میرے دادا جان مرحوم و مغفور(جناب ملک محمد اشرف خان)
[1] بخاری : کتاب العلم 2
[2] ۔ الرعد : 17
[3] ۔ مسلم : کتاب العلم