کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 162
صفحات پر مشتمل ہوں گے۔ یہ فقیرپہلا شخص ہے، جس نے حضرت مولانا سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ان سے متعلق ریڈیو پاکستان(لاہور) میں تقریر کی اور روزنامہ’’امروز‘‘ میں جواس زمانے کا مشہور اخبار تھا، ان پر مضمون لکھا۔ اس فقیر کو یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ اپنی کتاب’’نقوش عظمت رفتہ‘‘ میں ان کے بارے میں طویل مضمون لکھا اور ان کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ زیر مطالعہ کتاب میں حضرت مولانا کے شاگردوں کی فہرست میں مولوی محمد ادریس بڈھیمالوی کا نام بھی لکھا گیا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ موضع بڈھیمال ضلع فیروزپور میں بہت سے علمائے کرام سکونت پذیر تھے۔ لیکن اس نام کا کوئی عالم دین وہاں نہیں تھا، مصنفہ محترمہ کی یہ اطلاع مبنی برصحت نہیں ہے۔ کتاب میں حضرت کے بیس بائیس شاگردوں کا قدرے تفصیل سے یا اختصار سے ذکر کیا گیا ہے، ان کے بیس شاگردوں کا تذکرہ اس فقیر نے کیا ہے، لیکن یہ دونوں فہرستیں نامکمل ہیں ان کے اور بھی بہت سے شاگرد ہیں، جنھوں نے اپنے اپنے انداز سے خدمات انجام دیں یا دے رہے ہیں۔