کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 156
وفات پائی) (2) مولانا شبیر احمد : گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ حضرت مولانا سلفی سے درسی کتابیں پڑھیں۔ مسلکاً بریلوی تھے اور اس مسلک کے مشہور علما و مقررین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ گوجرانوالہ میں بڑے قبرستان کی سڑک پر اسلامیہ ہائی سکول کے سامنے مسجد تعمیر کرائی۔ جس میں خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ حضرت مولانا سلفی کے جنازے میں شریک تھے۔ ان کی تاریخ وفات کا علم نہیں ہو سکا۔ (3) مولانا محمد توتے چکیا :ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں توتا چک کے رہنے والے تھے۔ مولانا سلفی مرحوم کے ابتدائی دور کے شاگردوں میں سے تھے۔ بہت اچھے مدرس تھے۔ دارلعلوم اوڈاں والا(ضلع لائل پور) میں بھی پڑھاتے رہے اور حضرت مولانا سلفی کے مدرسہ محمدیہ میں بھی کچھ عرصہ خدمت تدریس پر مامور رہے۔ (4) مولانا معین الدین لکھوی : یکم جنوری 1921ء کو لکھو کے(ضلع فیروزپور مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ 1939ء کے پس و پیش گوجرانوالہ میں حضرت مولانا سلفی سے استفادہ کیا۔ پنجاب کے بہت بڑے علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اس لیے حضرت مولانا سلفی ان پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ دودفعہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن(ایم این اے)منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاءالحق سے قریبی تعلق تھا۔ اس نے اپنی مجلس شوریٰ کا بھی انہیں رکن نامزد کیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی،حضرت مولانا سلفی اور حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہم اللہ تعالیٰ کے زمانے میں مرکزی جمعیتِ اہل حدیث کی مجلس عاملہ کے رکن اور اس کی بعض سب کمیٹیوں کے رکن رہے۔ حضرت حافظ صاحب کی وفات کے بعد بہت سال مرکزی جمعیت کا منصب امارت ان کے سپرد رہا۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے ناظم ہیں۔ یہ بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انھیں اپنے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے مواقع عطا فرمائے۔ (5) مولانا محی الدین لکھوی : 1918ء کو لکھو کے(ضلع فیروزپور) میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں کچھ عرصہ حضرت مولانا سلفی کے حلقہ شاگردی میں رہے۔ مولانا معین الدین لکھوی کے بڑے بھائی تھے۔ متقی اور پرہیزگار بزرگ، تہجد گزار، مہمان نواز اور بلند اخلاق، بہت لوگوں نے ان سے استفادہ کیا۔ بلاشبہ پیکر حسنات تھے۔ 28/فروری1998ء کو موضع الہ آباد(تحصیل دیپال پور،ضلع اوکاڑہ) میں وفات پائی۔ جنازے میں دور و نزدیک کے بے شمار لوگوں نے