کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 155
حرفے چند حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ تقریر و خطابت،درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ان کا مقام بڑا بلند تھا۔ علاوہ ازیں سیاسیات میں بھی انہوں نے بےحد خدمات انجام دیں اور برصغیر کی آزادی کے لیے بڑی جدوجہدکی اور قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی حکومت نے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی اور انہیں کئی دفعہ اسارت و نظربندی کے مراحل سے گزارا گیا۔ زیر مطالعہ کتاب میں ان کی تگ و تاز کے مختلف دائروں کی وضاحت کی گئی ہےاور ان کے علمی میدانوں سے قارئین کرام کو متعارف کرانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ نہایت قابل قدر کوشش ہے جو لائق مصنفہ محترمہ سعدیہ ارشد کی تگ و تاز کے نتیجے میں خوانندگانِ محترم کے علم میں آئی ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک اسلوب نگارش اور طریق اظہار ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ اپنی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کتاب میں بھی ایک انداز تحریر اختیار کیا گیا ہے، جس سے قارئین کرام مستفید ہوں گے۔ میں ان سطور میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لائق احترام مصنفہ نے کتاب کے آخری صفحات میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے چند تلامذہ کے اسمائے گرامی تحریر فرمائے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی فہرست ہے، پوری فہرست کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ میں بھی چند تلامذہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ (1)مفتی جعفر حسین : مشہور شیعہ مجتہد تھے۔ 1913ء میں گوجرانوالہ کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گوجرانوالہ میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی سے حاصل کی۔ مولانا محمد حنیف ندوی کے ہم درس تھے۔ شیعہ کے ممتاز رہنما تھے۔ نہج البلاغہ کا ترجمہ کیا اور حواشی لکھے۔ صحیفہ کاملہ کا ترجمہ و تحشیہ سپرد قلم کیا اور دو جلدوں میں سیرت امیر المومنین لکھی۔ عربی، فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ 29/اگست1983ء کو حرکت قلب بند ہو جانے سے میو ہسپتال(لاہور میں