کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 144
بازغہ جیسی کتابیں ایسے پڑھاتے تھے جیسے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں۔ (3) مولانا حیدر حسن صاحب ٹونکی : ان کی رجال حدیث پر بڑی گہری نظر تھی۔ یہ حضرت حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ سے بیعت تھے اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایسی والہانہ محبت رکھتے تھے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ مولانا ندوی چار شخصیات سے بے حد متاثر تھے۔ (1) مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے تبحر علمی سے (2) مولانا ابوالکلام آزاد کی جامع اور پروقار شخصیت سے (3) عاشق رسول جناب قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی متانت،تقویٰ اور صاف ستھری معاشرت سے (4) اپنے رفیق خاص مولانا عبدالرحمٰن نگرامی جو کلکتہ میں دعوت و ارشاد و تدریس میں مصروف رہے اور بعد ازاں ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مولانا ندوی کی علمی و تبلیغی خدمات ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد 1930ء میں مولانا مسجد مبارک متصل اسلامیہ کالج لاہور کے خطیب مقرر ہوئے۔ خطابت کے ساتھ آپ روزانہ مغرب کے بعد درس قرآن بھی دیتے تھے۔ آپ نے اپنی حیات مستعار میں تین دفعہ سارے قرآن پاک کا درس دیا۔ نیز آپ نے خطبات جمعہ میں دو مرتبہ پورا قرآن مجید ختم کیا۔ آپ کے درس قرآن اور خطبہ جمعہ میں اسلامیہ کالج کے طلبا اور اساتذہ کثیر تعداد میں شریک ہوتے۔ ان دروس کے علاوہ آپ نے درج ذیل دینی رسائل کی ادارت اور معاونت فرمائی۔ (1)ہفت روزہ ’’مسلمان‘‘ سوہدرہ (2) ہفت روزہ ’’الاخوان‘‘ گوجرانوالہ (3) ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (4) ہفت روزہ ’’توحید‘‘ لاہور (5) سہ روزہ ”منہاج‘‘ لاہور ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی ادارہ ثقافت اسلامیہ 1950ء میں قائم ہوا۔ اس کے بانی ڈائریکٹر خلیفہ عبدالحکیم تھے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کو جب مولانا کی جلالت علمی کا پتہ لگا تو انہوں نے مولانا کو ادارہ میں شامل ہونے کی پیش کش کی۔ چنانچہ مولانا مئی1951ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک ہو گئے۔ ادارہ کے ساتھ آپ کی وابستگی وفات تک برقرار رہی۔ جس زمانہ میں صدر ایوب خان نے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی تو ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے آپ نظریاتی کونسل کے رکن