کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 14
آلود جبینوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آپ کے عزم اور ارادے میں کیا مجال جو ذرہ برابر بھی لچک آئی ہو۔ قیامِ پاکستان کے بعد1953ء میں مرزائیوں کے خلاف جو ملک گیرتحریک اٹھی تھی،اس میں’’مرکزی جمعیۃاہل حدیث مغربی پاکستان‘‘نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔ اس وقت بھی رفقاء میں سے زنجیر و سلاسل کے لیے حضرت ہی کے نام قرعہ فال نکلا۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں؟
شخصیت:میانہ قد، فکر و تدبیر کی لکیروں سے مزین پیشانی، بشرہ علمی وجاہت اور موروثی نجابت کا آئینہ دار، ذہانت و زکاوت کی غماز آنکھیں،متانت و خوش مزاجی کے عمدہ پیکر،لباس سادہ مگرباوقار،چال میں تمکنت بھی ہوتی تھی لیکن مسکنت کا پہلو نمایاں تھا۔ دل کے غنی اورطبیعت کے فقیر تھے۔
یارب! وہ ہستیاں اب کس دیسی بستیاں ہیں
کہ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
اخلاق وعادات:سیاسی مشغولیتوں اور جماعتی مصروفیتوں کے باوجود حضرت مرحوم نے تقریباً نصف صدی قرآن و حدیث کی شمع اسی جگہ فروزاں رکھی،جہاں ایک مرتبہ حضرت کے بزرگ روشن کر گئے تھے۔ اگرچہ مختلف اوقات میں بیرونی احباب کی طرف سے اور آخر میں مدینہ منورہ سے گراں قدر پیش کشیں بھی ہوئیں۔ لیکن ابتدائی معاشی مشکلات کے باوجود قناعت و استقلال سے دو تہائی سے زیادہ زندگی ایک ہی جگہ گزار کر خدمتِ دین کی درخشاں مثال چھوڑگئے۔
لیکن ان سب کے باوجود مولانا مرحوم طبعاً ’’عوامی‘‘مزاج رکھتے تھے۔ اکثر عوام کے ساتھ ہی بودوباش رکھتے اور غربا کے درد میں فوراً اور برابر کے شریک ہوتے، نمود و نمائش اور لیڈر رکھ رکھاؤ نام کو نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو محدثین کرام،ائمہ عظام،مجاہدین ملت شیخ الاسلام ابن تیمیہ،ابن قیم،شاہ ولی اللہ اور مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین۔
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزمِ عشق یک دانائے راز آید برون