کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 139
مسلک و مشرب حضرت مفتی صاحب مذہباً حنفی اور مشرباً چشتی صابری تھے۔ اور حضرات علمائے دیوبند کے ہم مشرب تھے۔ مگر مذہبی مخاصمت سے حتی الوسع اجتناب فرماتے تھے اور باہمی تکفیر بازی کے مشغلہ کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اگرچہ اہل حدیث حضرات سے مسلکاً اختلاف تھا لیکن ان کو کبھی برا نہیں کہا،حضرت مولانا محمد داؤد صاحب غزنوی رحمہ اللہ کی خدمت میں کثرت سے تشریف لاتے اور حضرت غزنوی بھی حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتے۔ بریلوی حضرات بھی مسائل دینیہ کی ضرورت کے موقعہ پر آپ کی خدمت میں آتے رہتے تھے۔ جب کبھی اسلام کے قطعی عقائد کے خلاف کسی گوشہ سے آواز بلند ہوتی تو آپ بے قرار ہو جاتے اور اس فتنے کا انسداد کرنے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء سے اشتراک فرماتے۔ مسلک کے سلسلہ میں آپ اس مقولہ کے قائل تھے کہ کسی دوسرے مسلک والے کو ’’چھیڑو نہیں اور اپنا مسلک چھوڑو نہیں‘‘ آپ حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت تھے۔ مولانا تھانوی نے آپ کا زہد و تقویٰ دیکھ کر خلافت سے نوازا۔ خدمات تکمیل تعلیم کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ پسند فرمایا۔ چنانچہ مدرسہ نعمانیہ امرتسر میں آپ مدرس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ مولانا کے اندازِ تدریس، تبحر علمی اور زہد ورع کے پیشِ نظر اسی مدرسہ میں آپ کو صدر مدرس مقرر کر لیا گیا۔ آپ نے چالیس برس تک اس مدرسہ میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے اندازِ تدریس کے متعلق مولانا خیر محمد فرماتے ہیں۔ ’’احقر مفتی صاحب کے معقول و منقول کا اس وقت بہت زیادہ معتقد ہو گیا۔ جب انہوں نے ایک مرتبہ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں منطق کی مشہور کتاب’’ حمداللہ‘‘ کا معروف مقام مسئلہ وجود رابطی اپنے خلف الرشید حافظ عبیداللہ صاحب کو میرے سامنےپڑھایا اور اس مقام کو تھوڑے وقت میں ایسا حل فرمایا اور عبارت کو اس طرح منطبق کیا کہ میں حیران رہ گیا۔ [1]
[1] احسن السوانحص 27۔ 28