کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 135
اور بیرون شہر کے طلبا استفادہ کر رہے ہیں۔ تدریسی سرگرمیاں اور تلامذہ مولانا موصوف نے 1918ء میں مدرسہ دارالحدیث کی بنیاد رکھی۔ اس میں تقریباً ساٹھ ستر طلبا چار سال تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد مولانا نے اپنے بعض احباب مقیم دہلی خصوصاً حاجی عبدالرحمٰن صاحب کی خواہش پر اسے ’’دارالحدیث رحمانیہ‘‘کے نام سے دہلی منتقل کر دیا اور خود بھی کچھ عرصہ وہاں رہ کر اس میں پڑھاتے رہے۔ وہاں سے وطن واپس ہوئے تو ایک نئی طرز کا مدرسہ جاری کیا۔ جس میں عام مدارس کے طلبا کو جن کے پاس سند فراغت ہوتی حدیث و تفسیرکی بڑی بڑی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مخالفین کے اعتراضات کے جوابات دینے کی ٹریننگ دی جاتی۔ مگر یہ مفیدسلسلہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا۔ ایک تو مولانا موصوف کو شکایت تھی کہ اس مقصدکے لیے قابل تلامذہ نہیں ملتے اور دوسرے انہیں تبلیغی دوروں اور مناظروں کے لیے اکثر شہر سے باہر جانا پڑتا۔ تاہم دارالحدیث اور مذکورہ مدرسہ کے زمانہ میں بیسیوں شاگردوں نے آپ سے استفادہ کیا۔ ان خوش نصیب تلامذہ میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ۔ مولانا عبدالمجیدخادم سوہدروی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث سوہدرہ۔ مولانا محمد عبداللہ ثانی۔ مولانا ابو حفص عثمانی۔ مولانا حافظ عبداللطیف ملتان اور مولانا عبدالعزیز ناظم دارالحدیث اوکاڑہ علیہم الرحمہ وغیرہم جیسے جلیل القدر علماء کے علاوہ بنگال، یوپی اور دیگر صوبہ جات ہند کے کئی نامی علماء شامل ہیں۔ تبلیغ و مناظرے آپ کا شمار اپنے زمانہ کے بہترین مقررین و مناظرین میں ہوتا تھا۔ تقریر قرآن و حدیث کے معارف و حقائق کا خزینہ ہوتی جس کی تاثیر اپنے پرائے محسوس کرتے۔ تقاریر اور تبلیغ کے لیے آپ کو دہلی، مدراس، یوپی، سی پی، بنگال، بہار، حیدرآباد دکن اور رنگون وغیرہ دور دراز شہروں میں متعدد مرتبہ مدعو کیا گیا۔ اسی طرح آپ نے مرزائیوں، عیسائیوں اور آریوں سے کامیاب مناظرے کیے۔ آریوں اور عیسائیوں سے مناظرہ کے لیے آپ اکثر رئیس المناظرین حضرت مولانا ثناءاللہ کے ساتھ شرکت فرماتے۔ مگر بیسیوں مرتبہ یہ جنگیں آپ نے تن تنہا یا مولانا احمد دین گکھڑوی اور مولانا نور حسین گرجاکھی کی اعانت سے بھی لڑیں۔