کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 134
حضرت حافظ صاحب مولانا میر کو لے کر وزیرآباد پہنچے اور تھوڑے ہی عرصہ میں حدیث شریف کے ضروری اسباق پڑھا کر علم حدیث کے تحقیقی مطالعہ کا گر سمجھا دیا۔ مولانا نے گھر واپس پہنچ کر حضرت حافظ صاحب کے بتلائے ہوئے طریقہ پر حدیث پڑھنی شروع کی۔ وہ صحاح ستہ کی ساری کتابوں کا ایک ہی باب نکال کر انہیں اپنے سامنے پھیلا لیتے اور ان کا مطالعہ کرتے رہتے۔ اس دوران آپ کے والد گرامی آپ کو پنکھا کرتے رہتے۔ نہ بیٹےکے عرض کرنے پر یہ خدمت چھوڑتے اور نہ کسی نوکر کو یہ سعادت حاصل کرنے دیتے۔ کتب حدیث کا اس طرح مطالعہ کرنے کے بعد مولانا ،حافظ صاحب کی خدمت میں پہنچے اور امتحان دے کر سند فراغت حاصل کی۔ حفظِ قرآن مولانا مرحوم فہمِ رسا کے ساتھ ساتھ زبردست قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ایک دفعہ شعبان کے آخری ایام میں آپ کی نیک سیرت والدہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اللہ کوئی ایسارمضان بھی لائے گا جس میں وہ اپنے خاوند کے زیرنگرانی تعمیر کردہ شاندار اور خوبصورت مسجد میں اپنے پیارے ابراہیم سے تراویح میں قرآن سن سکیں۔ سعادت مند بیٹے نے ماں کی اس خواہش کو اگلے سال تک اٹھا رکھنا بھی گوارا نہ کیا اور اسی وقت حفظِ قرآن پر کمربستہ ہو گئے۔ کیفیت یہ ہوئی کہ رمضان المبارک میں صبح کے وقت ایک پارہ یاد کر لیتے اور رات بلاتکلف اسے تراویح میں سنا دیتے۔ حضرت مولانا نے اپنی تصنیف نجم الھدیٰ کے دیباچہ میں اس محیر العقول واقعہ کا مختصراً ذکر کرنے کے بعد بالکل بجا طور پر لکھا ہے۔ وھٰذا من نوادر النعم علی ھٰذا العبد۔ مطالعہ کا شوق اور کتب خانہ مولانا مرحوم کو مطالعہ کتب بینی کا ازحد شوق تھا۔ گھریلو غنا کے سبب ساری عمر کسب معیشت کی ضرورت سے بے نیاز رہے۔ والد نےوسیع جائیداد چھوڑی تھی۔ اسی پر گزر ہوتی رہی اور ساتھ ساتھ حصول کتب کی کوشش بھی فرماتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موصوف کا کتب خانہ برصغیر کے بہترین کتب خانوں میں شمار ہونے لگا۔ یہ کتب خانہ جس میں مختلف علوم و فنون عربیہ و اسلامیہ کی بہترین کتابیں جمع ہیں اور آج بھی بحمداللہ محفوظ ہیں۔ حضرت مولانا نے اس کتب خانہ کو جماعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ آج بھی مدرسہ ابراہمیہ کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ شہر