کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 133
امام العصر حضرت مولانا محمد ابراہیم میر رحمہ اللہ سیالکوٹی برصغیر پاک و ہند کی اہل حدیث تاریخ میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب ان کا کوئی اہم جلسہ،کوئی کانفرنس،کوئی بلند پایہ علمی و دینی مجلس اور کوئی محفل مناظرہ ’’شیخین‘‘ یعنی حجت الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ اور فاضل فہیم و شہیر حضرت مولانا محمد ابراہیم میر رحمہ اللہ سیالکوٹی کے بغیر مکمل نہ ہوتی تھی۔ یہ حضرات صحیح معنوں میں اپنے وقت کے امام تھے۔ انہوں نے انفرادی یا مشترکہ طور پر دینِ حق اور مسلک سلف کی جو تحریری، تقریری، تدریسی و علمی اشاعت کی وہ کئی بڑی بڑی انجمنوں اور جماعتوں کے کام پر بھاری ہے۔ خاندانی حالات اور تعلیم و تعلم حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی شہر سیالکوٹ کے ایک معزز کشمیری گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کی پیدائش1875ء میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی مستری قادر بخش مرحوم اپنے وقت کے بہترین عمارتی ماہر اور کامیاب ٹھیکیدار تھے۔ شہرکے چند رؤسا میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ گو خود صاحب علم نہ تھے مگر نیک خو تھے اور علمائے کرام کی صحبت کے شائق تھے۔ علماء کو گھر بلاتے اور ان کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے۔ ان کا یہی مشغلہ مولانا کی علمی ترقی کا پیش خیمہ بن گیا۔ ابتدا میں تو انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو سکول میں داخل کرا دیا۔ جب مولانا نے میٹرک پاس کر لیا تو آپ کو مرے کالج میں داخل کرا دیا گیا۔ مگر اسی اثنا میں گھر میں علماء کی آمدورفت اپنا اثر کر چکی تھی۔ چنانچہ مولانا میر نے 1896ء میں کالج کو خیرباد کہا اور والد مکرم کی اجازت سے ہمہ تن علوم عربیہ و اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے مشہور عالم باعمل حضرت مولانا غلام حسن رحمہ اللہ سیالکوٹی سے حاصل کی۔ ازاں بعد بخت نے مزید یاوری کی اور استاد پنجاب محدث زماں حضرت مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی مولانا میر کے والد کی دعوت پر سیالکوٹ تشریف لائے۔ دوران گفتگو حضرت حافظ صاحب نے پوچھا کہ آپ کے کتنے صاحبزادے ہیں۔ جواب ملا دو۔ حضرت حافظ صاحب نے فرمایا اچھا ایک تم رکھ لو اور یہ ابراہیم مجھے دیدو۔ والد نے بلاتامل بیٹےکا بازو پکڑ کر حافظ صاحب کے ہاتھ میں دیدیا۔ اور کہا کہ لیجئے! ابراہیم آپ کے سپرد ہے۔