کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 130
محدث وزیرآبادی کی وصیت اور وفات مرض الموت میں آپ نے مجھے اور میرے عم زاد بھائی مولوی’’احمد دین‘‘سیالکوٹی کو بلایا اور کہا کہ میرا کتب خانہ اسی مسجد میں تدریس حدیث کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ وقف ہے۔ میری اولادمیں سے کسی کو اس کی ملکیت کا حق نہ ہوگا۔ اگر یہاں درس قائم نہ رہے تو یہ کتب خانہ دہلی میں اہل حدیث کانفرنس کی تحویل میں دیدیا جائے۔ اس کے بعد آپ نے گھر سے ململ کی ایک پرانی دستار منگوا کر فرمایا کہ میاں صاحب مرحوم نے یہ مجھے عنایت فرمائی تھی،اس کو میرے کفن میں استعمال کرنا۔ آپ نے ماہِ رمضان1334ھ میں وفات پائی۔ مسلمانان وزیرآباد کے علاوہ کئی شہروں سے شاگرد اور ہزارہا ارادت مند بلاتفریق مسلک نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ نماز جنازہ میرے دوسرے استاد اور آپ کے سمدھی مولانا غلام حسن سیالکوٹی نے پرھائی۔ مولانا ثناءاللہ صاحب مرحوم نے اس روز فرمایا کہ’’آج اس زمانے کا امام بخاری فوت ہو گیا ہے۔ ‘‘ [1] مولانا لکھنوی(حضرت مولانا عبد الحی حسنی لکھنوی)اپنی شہرہ آفاق کتاب نزہۃ الخواطر میں فرماتے ہیں۔ ’’آپ نے شیخ عبدالجبار ناگپوری،حکیم محمد احسن حاجی پوری، شیخ نذیر حسین دہلوی اور شیخ عبدالحق بن فضل اللہ نیوتنی سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد امرتسر گئے اور پورے دو سال تک شیخ عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ رہے۔ آپ کی صحبت سے ازحد فیض اٹھایا۔ بعد ازاں1292ھ میں وزیرآباد چلے گئے اور برابر درس و تدریس کے کام مین ہی لگے رہے۔ یہاں تک کہ35مرتبہ سے زیادہ صحاح ستہ پرھائی۔ آپ کو لغت اور نحو پر کامل دستگاہ تھی۔ رجال کی جرح و تعدیل،ان کے طبقات اور تمام فنون حدیث پر کامل دسترس تھی۔ آپ کو حدیث مین صحیح و ضعیف کی پہچان کے علاوہ قرآن وحدیث کے متن بھی ازبر تھے۔ آپ نے حضرت شیخ الکل میاں نذیر حسین کے تلامذہ میں منفرد مقام حاصل کیا۔ چنانچہ کثرت درس کے اندر نہ تو کسی نے آپ کا درجہ حاصل کیا نہ آپ کا کوئی قریبی درجہ‘‘ [2] علامہ شمس الحق ڈیانوی کہتے ہیں:
[1] تاریخ اہل حدیث ص 30۔ 427  [2] نزہۃ الخواطر ص 308