کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 13
تنظیم اہل حدیث وجود میں آئی تھی اس کو متحرک کرنے میں بھی مرحوم کا کردار بہت نمایاں تھا بلکہ آپ ہی روح رواں تھے۔ اہتمام و انصرام حضرت ہی کے سپرد تھا۔
قیام پاکستان سے قبل:1947ء کے بعد حالات کے اعتدال پر آتے ہی حضرت مولاناسیدمحمدداؤدصاحب غزنوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضرہوئےاوران کوآمادہ کیا۔ آپ کی تجویزکو حضرت غزنوی رحمہ اللہ نےشرف قبولیت بخشااورتمام علمی،عملی اورتنظیمی صلاحیتیں تادم واپسیں(1963ء)تنظیم جماعت کےلیےصرف فرمادیں۔
چنانچہ 1949ءمیں دارالعلوم تقویۃالاسلام لاہورکےہال میں جماعت کےمنعقدہ اجتماع میں جس میں حضرت مولانامحمدداؤدصاحب غزنوی علیہ الرحمہ صدرمنتخب ہوئےاورپروفیسرعبدالقیوم صاحب ناظم اعلیٰ،کچھ مدت بعدمحترم پروفیسرنےجب اپنی ملازمتی مجبوریوں کےباعث استعفاءدےدیاتوتھوڑی مدت مولانامحمدعطاءاللہ حنیف عارضی ناظم اعلیٰ رہے۔ بعدمیں مستقل طورپرمرکزی جمعیت میں نظامیت علیاکی ذمہ داری حضرت مرحوم کےکندھوں پرآپڑی۔ جس کوکئی سال تک نبھایا۔
ہفت روزہ الاعتصام کوازاول تاآخرمولانامحمداسماعیل کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ الجامعۃ السّلفیہ بھی حضرت ہی کی شب وروزکی محنت کاثمرہے۔
سیاسیات:1921ءمیں برصغیر،سیاسی لحاظ سےایک فیصلہ کن جنگ آزادی کےموڑپرتھااورپورےبرصغیرمیں انگریزی سامراج کےخلاف ہنگامہ بپاتھا۔ مولانامحمداسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تحریک جہاد’’تحریک مجاہدین‘‘ کاعنوان اختیارکرچکی تھی۔ مولانانےچونکہ عمرکاابتدائی حصہ وزیرآبادہی کےمجاہدانہ ماحول میں گزاراتھا،اس بناپرحضرت کوبھی تحریک مجاہدین سےگہری وابستگی تھی۔ ان کےقائدین اورعلماءسےگہرےمراسم تھےاورانگریزدشمنی گویاگھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اس جذبہ جہادسےسرشار1921ءمیں جب مولاناآزادعلیہ الرحمۃاپنی جماعت’’حزب اللہ‘‘ کی بیعت کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے تو مولانا لاہور آئے اور مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی اور آزادی کی تحریکوں مثلاً تحریک خلافت،تحریک عدم تعاون، جمعیۃ علمائے ہند میں خوب کھل کر کام کیا اور جب تک ان کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ۔۔۔۔ انگریز کو وطن عزیز سے نکال باہر کرنا۔۔۔ نہ پایا اسی وادی پرخار میں ہمت،جرات اور استقلال سے رہے۔ اس کی پاداش میں مولانا نے جہاں قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ وہاں اپنوں اور بیگانوں کی شکن