کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 129
رفتہ رفتہ خداتعالیٰ نے اکثر لوگوں کومیرا عقیدت مند بنا دیا۔ انسانوں کے علاوہ جنات نے بھی آپ سے علم حدیث حاصل کیا۔ اس امر کے بھی کئی واقعات آپ نے خود مجھ سے ذکر فرمائے۔ آپ اپنے شاگردوں پر خصوصی نظر التفات رکھتے اور ان کی دلداری میں ہر طرح سعی فرماتے۔ مولانا ثناءاللہ صاحب فاضل امرتسری مرحوم اور عاجز پر خصوصی نظر عنایت تھی۔ اس بات کی شہادت آپ کا ہر شاگرد دے سکتا ہے۔ آپ کی تدریس حدیث کا شہرہ اس قدر بلند ہوا کہ آپ کے پاس علم حدیث کی تحصیل و تکمیل کے لیے ایسے ایسے علما بھی آتے رہے جو دیگر فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ آپ ائمہ دین کا بہت احترام کرتے تھے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بےادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔ بعض متشدد لوگ آپ سے حدیث پڑھنے آتے مگر یہ شرط کر لیتے کہ حدیث تو آپ سے پڑھیں گے لیکن نماز آپ کے پیچھے ادا نہیں کریں گے۔ آپ اس شرط کو بخوشی منظور فرما لیا کرتے تھے۔ وعظ و تذکیر وعظ و تذکیر کے بیان میں اس قدر زور تھا کہ یہ احساس ہوتا تھا کہ علم حدیث کا دریا بہہ رہا ہے۔ حاضرین پر اس کا خاص اثر ہوتا تھا۔ شمس العلماء مولانا میر حسن سیالکوٹی (جو میرے اور علامہ سر محمد اقبال کے استاد تھے)کو جناب حافظ صاحب مرحوم سے کمال عقیدت تھی۔ وہ ان کے انداز تقریر سے از حد متاثر تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب میں ایک کمال ہے کہ مسائل میں آپ متشدد اور تنگ نظر نہیں ہیں۔ اور سوال و جواب کے سلسلہ میں اپنی بات سے رجوع کرنا پڑے تو ہچکچاتے نہیں۔ آپ کے شاگرد آپ کے شاگرد نہ صرف پنجاب بلکہ ہندوستان، پاکستان کے اکثر شہروں میں،دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں، چناچہ مدراس، دہلی، کلکتہ،رنگون(برما کا دارالخلافہ) اور دوسرے مشہور شہروں میں آپ کے بہت سے شاگردوں سے میری ملاقاتیں ہوتیں جن میں سے بعض میرے زمانہ تعلیم سے پیشتر آپ سے علم حدیث کی تکمیل کر چکے ہے۔ سید ابو الحسن تبّتی صحیح مسلم میں میرے ہم درس تھے، علامہ’’ نجد‘‘ کے ایک شاگرد کی سند آپ کے حکم سے میں نےخود لکھی اور اس پر آپ کی مہر لگائی۔