کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 123
اسلامی نظام حکومت کا مختصر خاکہ یہ پر مغز اور بصیرت افروز مقالہ حضرت مولانا نے 1954ء میں تحریر فرمایا تھا اور ادارہ اشاعت السنۃ کی طرف سے شائع کر دیا گیا تھا۔ جن مسائل پر مقالہ میں بحث اس زمانہ میں کی گئی تھی وہی مسائل آج بھی بحث و تمحیص کا موضوع بن رہے ہیں۔ یہ مقالہ مولانا کی سیاسی بصیرت اور جلالت علمی کا زندہ ثبوت ہے۔ آغاز مقالہ میں حضرت نے تحریر فرمایا ہے۔ ’’یہ حقیقت اب مخفی نہیں رہی کہ متحدہ ہندوستان میں اہل حدیث کی تحریک نے اپنے آغاز ہی سے ہند کے نظام ملک کو دینی بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس گوہر کی تلاش میں دریائے اٹک اور دریائے کنار کی گہرائیوں سے حضرو کے میدانوں اور اسی ماحول کے پہاڑوں کی چوٹیوں تک کو چھان مارا۔ اس راہ کے بیسوں شہید اس علاقے کے گردونواح میں آج محو خواب ہیں۔ نگریز اور سکھ دونوں کے خلاف لڑ کر جام شہادت نوش کرنے والوں کا اس کے سوا کچھ مقصد نہ تھا کہ وہ دین حق کو سرزمین ہند میں غالب دیکھیں اور کلمہ حق کو سربلند کریں۔ مولانا نے اس مقالہ میں اظہار تاسف کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ اوائل صدی میں اگر اس مکتب فکر کے ساتھ معاندانہ جنگ نہ لڑی جاتی، شہدائے بالا کوٹ کے پروگرام کو وہابیوں کے نام سے بدنام نہ کیا جاتا تو دنیا میں اسلام کا جغرافیہ آج بالکل مختلف ہوتا اور آج کے مؤرخ کی رائے دنیائے اسلام کے متعلق بالکل اور ہوتی مگر۔ یفعل اللّٰه مایشاء۔ [1] مولانا نے تحریر فرمایا ہے کہ عصر حاضر کے پیش آمدہ مسائل اور ان کی جزئیات ایسی تو نہیں کہ کوئی فقہ کی کتاب نکال کر فتویٰ تحریر کر دیا جائے اور اپنے مکتب فکر کے افراد کو خوش کر دیا جائے۔ آپ کا فرمانا ہے کہ ان جزئیات کے متعلق مروجہ فقہیں بالکل خاموش ہیں۔ اس لیے اصول اور ادلہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد مولانا نے سرمایہ دارانہ نظام اور انگریز کی منحوس یادگاروں اور سرمایہ داری کے اثراتِ بد اور اشتراکیوں کی تخریک کاری پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے کہ کسی طرح اسلام دشمن قوتوں نے Havesاور Have notکے چکر میں ڈال کر مسلمانوں کو طبقاتی کشمکش میں
[1] الاعتصام 19ستمبر 1969ء