کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 121
حدیث پر بحث فرمائی ہے۔ مولانا کے دلائل دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے مقالہ لکھ کر منکرین حدیث پر اللہ کی حجت پوری کر دی ہے۔ اب منکرین حدیث کے لیے دو ہی راہیں ہیں کہ یا تو قرآن کے واضح نصوص کے سامنے اپنے باطل دعاوی سے دستبردار ہو جائیں یا پوری جرات سے کام لیں اور حدیث کی طرح قرآن کا بھی انکار کر دیں۔ حضرت مولانا نے فلاوربک لایومنوناور ماکان لمومن ولامومنۃ اذقضی اللّٰه ورسولہ سے استدلال کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیوی حیثیت سے رسول حاکم اور امیر ہے اور اپنے روحانی منصب کے لحاظ سے وہ پیغمبر ہے۔ اگر دنیوی حیثیت سے اس کے فیصلہ سے انکار کی صورت میں ایمان کی نفی ہو سکتی ہے تو اس کے روحانی منصب سے اختلاف یا اس کی حجیت سے انکار تو بطریق اولیٰ ایمان کی موت کے ہم معنی ہو گا۔ بعض آیات کا حوالہ دے کر مولانا نے بعض نتائج اخذ فرمائے ہیں مثلاً ص 16کتاب ھذامیں رقمطراز ہیں۔ (1)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی قبولیت شرط ایمان ہے۔ (2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد ذاتی پسندکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (3) اگر کوئی اپنی پسندکے لیے اصرارکرےاور اپنی پسند کےمطابق فیصلہ کی سعی کرے تو اس کے لیے ضلال مبین کی وعید موجود ہے۔ مولانا نے ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے(کتاب ھذا ص20)’’بعض منکرین حدیث نے بڑی عنایت فرمائی ہے کہ حدیث نبوی کو مقدس تاریخی دستاویز قرار دیتے ہیں۔ حدیث نبوی کو صرف تاریخی دستاویز کی حیثیت دینا انکار نبوت ہے۔ چونکہ سنت کے ان حصوں پر جن میں کچھ تاریخی تذکرے موجود ہیں شاید تھوڑی دیر کے لیے یہ لفظ گوارا کر لیا جائے۔ لیکن اوامر و نواہی، ترغیب و ترہیب، زہد و ورع، اخلاق و عبادات، اذکار و ادعیہ پر کیونکر تاریخ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ یہ دھوکہ اور دجل ہے اور ان الفاظ میں نفاق کی بو ہے۔ [1] اس کتاب میں مولانا نے قطعی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حدیث نبوی کے بغیر حلت و حرمت، عبادات اور دیگر دینی معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ آخر میں مولانا نے ذرا سخت لہجہ استعمال فرمایا ہے کہ’’طلوع اسلام‘‘ اور اسی قسم کے دوسرے رسائل جس قسم کی دینی تربیت کر رہے ہیں اس کو دین کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اس قسم کی آزادی کی تلقین کر رہے ہیں جس کا
[1] حدیث کا تشریعی مقام ص 20۔ 21