کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 12
مجید اور خطبہ میں بھی ترتیب کے ساتھ دوسرے دور کا 18واں پارہ قریب الختم تھا۔
خطابت:خطابت میں پوری کی پوری تقریر حشو و زوائد سے پاک،بے ربط جملوں، غلط تلفظ اور حکایتوں سے مبرا ہوتی تھی۔ تقریر میں اپنے موضوع کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر اس طرح روشنی ڈالتے کہ اس کا تمام سیاق و سباق سمجھ میں آ جاتا۔
تصنیف و تالیف:تفسیر قرآن حکیم کے بعد حضرت کا پسندیدہ موضوع حدیث، حجیت حدیث، تدوین حدیث اور محدثین کرام کے کارنامے تھے۔ اسی بنا پر مولانا کو محدثین کرام رحمہ اللہ اور مسلک اہل حدیث سے محبت اور شیفتگی تھی، جس کا بین ثبوت حضرت کی مؤلفات اور زیر تصنیف تالیفات ہیں۔ اردو انشاء پردازی میں صاحب طرز تھے، جس میں روانی،سلامت بیانی،الفاظ کا چناؤ،ان کا جڑاؤ،طنز کی پھوار اور پھر محل کے مطابق اشعار کی آمد اور شگفتگی بدرجہ اتم موجودہوتی تھی۔ باوجودیکہ حضرت کثیرالاشغال تھے اور ایک ہی نشست میں شاید ہی کوئی مضمون رقم فرمایا ہو لیکن پھر بھی موضوع سے ربط اور تسلسل بدستور قائم رہتا تھا۔ شاید بہت کم حضرات کو علم ہو کہ اردو انشاء پردازی کے ساتھ ساتھ آپ کو عربی زبان اور اس کےلب و لہجہ پر بھی پورا عبور حاصل تھا۔ اس کی لطافتوں،نزاکتوں اور شیرینی کو برقرار رکھتے ہوئے اہل زبان سے ہمیشہ خط و کتابت رکھتے تھے۔۔۔ مطبوعہ و غیرمطبوعہ تصانیف کی تعداد مندرجہ ذیل ہے۔ (1)اسلامی حکومت کا مختصرخاکہ(2)مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (3)جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(4)تحریک آزادی فکر(5)حدیث کی تشریعی اہمیت(6)مقام حدیث قرآن کی روشنی میں(7)مسئلہ زیارت قبور(8)سبعہ معلقہ کا مکمل ترجمہ مع حل لغات اور اس کا پر مغز مقدمہ(9)رسول اکرم کی نماز اور درجنوں مقالات و مضامین(10)مشکوٰۃالمصابیح کے تقریباً نصف اول کا ترجمہ۔
تدریس:گوجرانوالہ میں وارد ہوتے ہی خطابت کے ساتھ مدرسہ محمدیہ بھی قائم فرمایا۔ چنانچہ مولانامحمد حنیف ندوی رحمہ اللہ آپ کے اولین تلامذہ سے ہیں اس کے علاوہ سینکڑوں طلباء مستفید ہوئے۔ جماعت کو منظم کرنے کی حضرت کو جنون کی حد تک دھن تھی جسے اگر فطرت ثانیہ سے تعبیر کیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو۔ 1924ء میں گوجرانوالہ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا سالانہ اجلاس کرا ڈالا۔ اس کے بعد1924ء کے جس اجلاس میں مولاناثناءاللہ صاحب امرتسری مرحوم کو جماعت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں اپنے رفقاء سمیت شریک ہوئے۔ بعد ازاں 1349ھ کے جس تاریخی اجلاس میں مولانا سید محمد شریف صاحب کو امیر منتخب کیا گیا تھا اور جمعیت