کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 119
مگر بالآخر حقیقت کا اظہار ہو کر رہتا ہے فیض الباری شرح بخاری میں وہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں ’’واعلم ان البخاری مجتھد لاریب فیہ‘‘ بخاری بلاشک مجتہد ہیں۔ ھقیقت بھی یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کسی کے مقلد نہیں۔ امام بخاری کا مسلک نامی اس کتاب میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ شوافع کا یہ دعویٰ کہ امام بخاری شافعی مسلک کے پیرو تھے غلط ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ الجامع الصحیح میں وہ کئی جگہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے اختلاف فرماتے ہیں۔ مثلاً شوافع کا مسلک ہے کہ زکوٰۃ جہاں سے وصول کی جائے وہیں کے فقراء میں تقسیم کی جائے۔ دوسری جگہ تقسیم کرنا درست نہیں۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کی ہے اخذا لصدقۃ من الاغنیاء وترد فی الفقراء حیث کانوا۔ [1] اغنیاء اسے صدقہ لے کر فقراء کو تقسیم کر دیا جائے جہاں ہوں۔ دوسری مثال حضرت نے یہ دی ہے کہ شوافع کے نزدیک جمعہ کے لیے چالیس آدمیوں کا اجتماع ضروری ہے۔ امام نے ذکر فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا فرمائی۔ [2] یہ مسلک شوافع کے خلاف ہے۔
اسی طرح مولانا سلفی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حنبلی بھی نہ تھے اور کئی مسائل میں حنابلہ سے اختلاف کرتے تھے۔ مثلاً حنابلہ کا مشہور مسلک ہے کہ جمعہ قبل الزوال بھی درست ہے۔ امام نے صراحت فرمائی ہے۔ ’’باب وقت الجمعۃ اذا ذالت الشمس‘‘[3] اسی طرح حضرت سلفی رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ امام کی مذاہب اربعہ سے کسی کی مخالفت یا موافقت کا انحصار دلیل پر ہے۔ اس لیے ان کی شافعیت یا حنبلیت کا دعویٰ محض خوش فہمی ہے۔
مولانا لکھتے ہیں کہ موالک اور احناف نے اچھا کیا کہ خواہ مخواہ انہیں اپنانے کی کوشش نہیں کی اگر ایسا کیا جاتا تو معاملہ بڑا غیر معقول ہوتا۔ مولانا نے ایک مقام پر سید انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کا امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بیان نقل فرمایاہے۔ ان البخاری عندی سلک مسلک الاجتھادولم یقلداحداًفی کتابہ بل حکم بماحکم بہ فھمہ۔ [4]
اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کو مجتہد مطلق فرمایا ہے۔ اسی طرح بعض دیگر اسلاف نے امام بخاری رحمہ اللہ کو مجتہد تسلیم کیا ہے۔
[1] صحیح بخاری جلد1 مطبوعہ منہ‘ ص 202
[2] ’’ ‘‘ ’’ ‘‘ ص 128
[3] ’’ ‘‘ ’’ ‘‘ ص 123
[4] ۔ فیض الباری جلد اول ص 335