کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 116
اسلام اور ادارۃ ثقافتِ اسلامیہ کی بھی خبر لی ہے۔ اس کے بعد مولانا سلفی رحمہ اللہ نے ’’خبر آحاد‘‘ کے عنوان سے معترضین کے جواب میں تحریر فرمایا ہے’’اخبار آحاد پر اعتراض عموماً ان لوگوں نے کیا جو انسانی نفسیات سے ناواقف اور ان کی حدود امکان سے ناآشنا تھے۔ آج بھی اس میں وہی نیچر پرست مشبہات کی راہیں پیدا کر رہے ہیں جو زمین پر بیٹھ کر آسمان کی باتیں کرنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ مختلف ادوار میں اخبار آحاد کے خلاف انہی حلقوں سے آواز اٹھی جو خود بدعت کے داعی تھے یا اہل بدعت سے ایک گونہ متاثر تھے۔ ‘‘ [1] اس کے بعد مولانا نے اخبار آحاد کے معترضین کی ایک فہرست مرتب فرمائی ہے اور یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ کس گروہ نے کس قسم کی اخبار آحاد کا انکار کیا ہے۔ یہ مولانا کی ایک نادر قسم کی تحقیق ہے۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خوارج نے ایسی اخبار آحاد کا انکار کیا جو اہل بیت کے فضائل میں تھیں۔ شیعہ نے ان آحاد کا انکار کیا جو صحابہ کے فضائل میں تھیں۔ معتزلہ اور جہمیہ نے احادیث صفات کا انکار کیا۔ بعض گروہوں نے ایسی اخبار احاد کا انکار کیا جو گیر فقیہ صحابہ سے مروی ہیں۔ یورپین تہذیب سے مرعوب گروہ مثلاً سرسید احمد خان وغیرہ نے صرف احادیث کا وہ ذخیرہ قبول کیا ہے جو ان کی نیچرکے موافق ہوا۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی۔ مولوی حشمت علی لاہوری۔ مولوی رفیع الدین ملتانی وغیرہ نے احادیث کا مکمل انکار کیا ہے۔ مسٹر غلام احمد پرویز اور ان کے ہمنواؤں کے نزدیک قرآن و حدیث اور پورا دین ایک کھیل ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک سیاسی نظریہ جسے ہر وقت بدلنے کا ہمیں حق ہے۔ مولانا شبلی مرحوم۔ مولانا حمید الدین فراہی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور عام فرزنداں ندوہ باستثنائےحضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تحریروں سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے۔ مولانا کا فرمان ہے کہ یہ حضرات حدیث کے منکرنہیں مگر ان کے انداز فکر سے انکار حدیث کے دروازے کھلتے ہیں۔ [2]
[1] جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ص 45  [2] جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ص 46۔ 47۔