کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 115
الفرصتی کے باوجود اس درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور ایک مدلل اور علمی مقالہ لکھا جو الاعتصام کی کئی اشاعتوں میں بالاقساط طبع ہوا۔ علمی حلقوں میں حضرت کا یہ محققانہ مقالہ ازحد پسند کیا گیا اور اہل علم کے اصرار پر کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے دیباچہ میں مولانا نے لکھا ہے کہ اسلامی قیادت کے ان ارتقائی نظریات پر ائمہ سنت کی تصریحات کی روشنی میں لکھنا مندرجہ ذیل عبارت کی وجہ سے ضروری ہو گیا ہے۔ سید مودودی رحمہ اللہ اپنی کتاب تفہیمات میں’’حدیث میں مختلف نظریات‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ ’’تیسراگروہ حیثیت رسالت اور حیثیت شخصی میں فرق کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور میں ابتدا میں ہی یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مسلک حق سے بہت زیادہ قریب ہے۔ اگرچہ تھوڑی سی غلطی اس میں ضرور ہے۔ لیکن الحمدللہ کہ وہ گمراہی کی حدتک نہیں پہنچتی۔ [1] آغاز کتاب میں ذہنی انتشار کے عنوان سے حضرت سلفی رحمہ اللہ نے سید مودودی کی بعض قابل اعتراض عبارت نقل کر کے ان کے عالمانہ جوابات تحریر کیے ہیں۔ مثلاً سید صاحب لکھتے ہیں۔ ’’احادیث ظنی تو ہیں اور ظنی چیز ثابت شدہ نہیں ہوتی۔ لیکن کسی چیز کا ثابت شدہ نہ ہونا یہ کب معنی رکھتا ہے کہ وہ ردی کر دینے کے قابل ہو۔ (تفہیمات ص312) اس لیے احادیث کو کلیتًہ رد کرنا درست نہیں۔ ‘‘دوسرے قابل گرفت مقام پر سید صاحب لکھتے ہیں۔ ’’وہ بہرحال تھے تو انسان ہی، انسانی علم کے لیے فطرۃً اللہ سے مقرر کی ہیں۔ ان سے آگے تو وہ نہیں جا سکتے تھے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے‘‘(تفہیمات ص318)اسی طرح حضرت سلفی رحمہ اللہ نے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی بعض عبارتوں پر نشاندہی فرمائی ہےاور پھر دفاع حدیث میں علم کے دریا بہا دیئے ہیں۔ مولانا نے ایک عنوان’’سنت ائمہ سنت کی نظر میں‘‘ قائم کر کے تلویح علی التوضیح۔ علامہ خضری کی اصول الفقہ، حسن احمد خطیب کی فقہ الاسلام،علامہ جزائری کی توجیہ النظر، حلبی کا رسالہ اصول الدین، صفی الدین حنبلی کے رسالہ قواعد الاصول۔ جرجانی کی تعریفات، امام بیضاوی کی منہاج۔ ابن حزم کی الاحکام وغیرہ کے حوالہ جات دے کر سید مودودی۔ مولانا اصلاحی دونوں کے اعتراضات کا مدلل جواب تحریر فرمایا ہے۔ اس عنوان کے تحت مولانا سلفی رحمہ اللہ نے ادارہ طلوع
[1] تفہیمات حصہ اول طبع چہارم ص 06۔ 235