کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 114
جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث (ایک تنقیدی جائزہ) آج سے کئی سال قبل مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’ترجمان‘‘ میں مسلک اعتدال کے نام سے ایک مضمون لکھا۔ مولانا ابو الوفاء ثناءاللہ رحمہ اللہ نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور متنبہ کیا کہ یہ سرسید احمد خان کی صدائے باز گشت ہے اور اس میں انکار حدیث کے جراثیم موجود ہیں یہ مضمون اخبار اہل حدیث امرتسر میں بالاقساط شائع ہوا اور بعد میں’’خطاب بہ مودودی‘‘کے نام سے الگ رسالہ کی شکل میں طبع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں یہ بات بھی تحریر کی گئی ہے کہ مسٹر غلام احمد پرویز کا حدیث شریف کے خلاف پہلا مضمون’’شخصیت پرستی‘‘کے عنوان سے مولانا مودودی کے رسالہ ترجمان القرآن میں چھپا تھا اور مولانا صاحب نے فی الجملہ اس کی تائید فرمائی تھی اور وہ تائید’’مسلک اعتدال‘‘ کی نوعیت کی تھی۔ سید مودودی رحمہ اللہ پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب آپ ختم نبوت کی تحریک کے زمانہ میں جیل سے رہا ہوئے تو آپ نے مسٹر پرویز کے رسالہ طلوع اسلام کے جواب میں برکت علی محمڈن ہال لاہور میں خطاب فرمایا۔ آپ کی تقریر کا اشتہار تو حدیث کی حمایت پر تھا مگر دوران تقریر آپ نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی’’الجامع الصحیح‘‘کے متعلق بعض ایسے الفاظ استعمال فرمائے جس سے اس کتاب حدیث کی صحت مشکوک اور اس کی اہمیت کم ہو کر رہ جاتی ہے۔ مولانا کی اس تقریر پر ’’الاعتصام‘‘نے گرفت کی کہ آپ نے حدیث نبوی کے دفاع پر خطاب فرمانا تھا مگر آپ امام بخاری پر برس پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت اسلامی کے ’’جنود‘‘ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی حمایت میں سینہ سپر ہو گئے اور سب سے آخر میں مولانا امین احسن اصلاحی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جماعت کے رسالہ ترجمان القرآن میں ایک طویل مضمون تحریر کیا جس میں صحیح احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے خوب دادِ تحقیق دی گئی۔ اس مضمون کا لب و لہجہ بھی ان کی روایتی سنجیدگی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا سلفی رحمہ اللہ سے گزارش کی گئی کہ آپ سید مودودی رحمہ اللہ کے ’’مسلک اعتدال‘‘ اور اصلاحی صاحب کے انتصار و دفاع دونوں کا ایک ساتھ علمی جائزہ لیں تاکہ غلط فہمیوں کے بادل چھٹ جائیں اور مغالطوں کے پردے چاک ہو جائیں۔ مولانا موصوف نے عدیم