کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 113
کے نیچے زندہ ہوں اور فتویٰ نہ دیں۔ صحابہ کو اختلاف اور ان پر بہتان سے نہ بچائیں۔ اگر آپ زندہ ہوتے تو سوال کا جواب دیتے۔ اے قوم تمہیں خدائے ذوالجلال، قرآن اور عقل مندوں سے شرم محسوس کرنا چاہیے، نہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کو پہچانا اور نہ انسانیت اور روح کی اقدار کو تم نے سمجھا۔ جس کا اسی قدر مبلغ علم ہو اسے خاموش رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت سے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر موت وارد ہو چکی‘‘ آخری اشعار یہ نقل کیے ہیں۔
من کان ھذا القدر مبلغ علمہ
فلیستتر بالصمت و الکتمان
ولقد بان اللّٰه ان رسولہ
میت کما قد جاء فی القرآن [1]
حافظ ابن قیم کے حوالہ جات کے بعد آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تفسیر عزیزی سے نقل کیا ہے کہ وہ بھی حیات النبی فی القبر کے قائل نہیں۔ اس کے بعد علامہ آلوسی حنفی کی روح المعانی (تفسیر القرآن الحکیم) سے یہ نقل کیا ہے کہ موصوف بھی اس سلسلہ میں اہل دیوبند کی ہم نوائی نہیں فرماتے۔ پھر مولانا نے حافظ ابن جریر کی تفسیر اور نواب محمد صدیق حسن والی بھوپال کی تفسیر فتح البیان سے یہ عبارت نقل کی ہے کہ شہدا برزخ میں زندہ ہیں۔ ان کی روحیں جنت میں جاتی ہیں۔ گو روح کا تعلق جسم سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ‘‘ [2]
مولانا نے کتاب کے آخر میں بریلوی علم کلام کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے کہ کس طرح وہ ہر بدعت کے ساتھ لفظ شریف لگا دیتے ہیں تو ایک نئی چیز کو مذہبی تقدس حاصل ہو جاتا ہے۔ اخوان دیوبند کے بارے میں مولانا نے اظہار تاسف کیا ہے کہ اپنے اکابر کے محاسن میں سخت مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں۔ ان کی تقدیس اور عظمت اسی طرح بیان فرماتے ہیں جس طرح وہ ائمہ ہدیٰ ہوں۔ (یہاں انہوں نے بعض اخوان دیوبند کی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں اساتذہ کے بارے میں ازحد مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے۔ )
مولانا نے محدثین کے انداز پر بعض ضعیف روایات پر جرح و تعدیل فرمائی ہے۔ انداز خالص علمی ہے۔ کسی کی ذات پر کوئی کیچڑ نہیں اچھالا گیا۔ اہل حدیث کے نقطہ نظر کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو قبروں میں حیات دنیوی حاصل نہیں۔
[1] ۔ قصیدہ نونیہ از حافظ ابن قیم ص 142
[2] فتح البیان از نواب صدیق حسن خان ج 1ص 204