کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 112
’’دار العلوم‘‘دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا سید انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا۔ مولانا کا خیال ہے کہ دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ صرف بریلوی نقطہ نظر پھیلا دیا گیا ہے۔ آغاز کتاب میں مولانا نے ہند میں مسلک اہل حدیث کے ارتقاء پر روشنی ڈالی ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بعض نگارشات کا حوالہ دیا ہے اور پھر مسئلہ حیات النبی کے بعض پہلوؤں پر شاہ عبدالحق، حافظ، بیہقی اور علامہ سیوطی کے بعض رسائل کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد حیات النبی کے متعلق بریلوی نقطہ نظر پیش کیا ہے اور مولانا احمد رضا خان صاحب کا یہ حوالہ نقل کیا ہے۔ ’’انبیاء علیہم السلام پر ایک آن موت آتی ہے اس کے بعد روحانی اور جسمانی لحاظ سے ان کو حقیقی زندگی اور ابدی حیات حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا اور ازواج کو نکاح ثانی کی اجازت نہیں۔ ‘‘ [1]
اس کے بعد مولانا نے دیوبندی مکتب فکر کے بعض علماء کے حوالہ جات نقل فرمائے ہیں۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے مکاتیب سے یہ حوالہ نقل کیا ہے۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو عام شہدا کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی اور از قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر۔ ‘‘ [2]
مولانا نے منطقی طریقہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ طفولیت، مرایقت، شباب، کہولت، شیخونحیت زندگی کے مختلف مراتب ہیں اور یہ زندگی کی منازل ہیں جن سے ہر انسان گزرتا ہے اور آخرت تک پہنچنے کے لیے موت ایک پل ہے جسے سب کو عبور کرنا ہے اس میں تحقیر ہے نہ اہانت، اگر موت کوئی بری چیز ہوتی تو انبیاء صلحا پر ایک آن کے لیے بھی آنی چاہیے تھی۔ اس کے بعد آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے بہت سے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں اور یہ عجیب نکتہ پیش کیا ہے کہ موت بری چیز نہیں اور اس کی کراہیت نہیں پائی جاتی۔ البتہ قرآن مجیدسے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موت سے کراہت کفر کی علامت ہے۔ ولتجدنھم احرص الناس علی حیوۃ ومن الذین اشرکوا یود احدھم لو یعمر الف سنۃ۔ [3]
اس کے بعد آپ نے حافط ابن القیم کے قصیدہ ’’نونیہ‘‘ کے بعض اشعار نقل کیے جن کا ترجمہ ذیل میں دیا جاتا ہے۔ ’’اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیوی ہے (کہ آپ قبر شریف میں زندہ ہیں) تو زمین کے نیچے کی بجائے عادت کے مطابق زمین کے اوپر رہنا چاہیے۔ آپ زمین
[1] ۔ فتاویٰ رضویہ جلد اول ص 411
[2] 130۔ مکاتیب مدنی جلد اول ص
[3] البقرہ : 96