کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 111
مسئلہ حیات النبی (ادلہ شرعیہ کی روشنی میں) مولانا سلفی رحمہ اللہ کی یہ مختصر کتاب ہے جس کا حضرت نے عربی نام بھی تجویز فرمایا ہے۔ ’’الا ادلۃ القویۃ علی ان حیوۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی قبرہ لیست بدنیویہ۔ ‘‘ اس کتاب کے آغاز میں حضرت مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی مدیر المکتبہ السّلفیہ نے تحریر کیا ہے کہ مسئلہ حیات النبی پر خلفشار کا آغاز اس طرح ہوا کہ ایک جید دیوبندی عالم اور صاحب علم و عرفان جناب سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری دام مجدہ نے حنفیہ کرام ملتان کے ایک جلسہ میں مسئلہ حیات النبی کے ضمن میں ایک تقریر ارشاد فرمائی۔ اس تقریر کے دوران ان کے مسلک کے بعض افراد نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ بعد میں فتویٰ بازی اور مضامین سازی کی مہم چلا دی۔ حتیٰ کہ خود مدرسہ دیوبند اور اس کے رسالہ ’’دار العلوم‘‘ نے اس میں کافی دلچسپی لی۔ [1] اس موضوع پر دیوبندی مکتب فکر کے بعض علماء کے مضامین دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان مضامین میں دلائل کم بیان ہوئے ہیں مگر جذبات زیادہ ہیں۔ موضوع کی نزاکت کے پیش نظر بعض اہل علم نے حضرت سلفی رحمہ اللہ کی خدمت میں درخواست کی کہ اس مسئلہ کا علمی جائزہ لیا جائے۔ چنانچہ حضرت العلام نے اپنے مخصوص انداز پر ماہنامہ ’’رحیق‘‘ جو ان دنوں جاری تھا۔ کی تین اشاعتوں۔۔۔ مارچ تا مئی 1958ء میں ایک بیش قیمت علمی و تحقیقی مقالہ شائع فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ دوسری طرف سے اس کا جواب تحریر کیا گیا تھا۔ چنانچہ تمام شبہات کے حل کے لیے مولانا نے پھر ایک تحقیقی مضمون رقم فرمایا جو ہفت روزہ الاعتصام میں بالاقساط شائع ہوتا رہا ہے۔ بعدہ، یہ رحیق میں شائع شدہ مضامین اور الاعتصام کے مقالہ جات کو کتابی صورت میں مدون کر دیا گیا۔ مولانا کی دوسری تحریروں کی طرح یہ بھی مدلل اور علمی شاہکار ہے۔ آغاز کتاب میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر خطاب فرمایا اور دوران تقریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا۔ سید صاحب کی تقریر کا دیگر دیوبندی احباب نے سخت نوٹس لیا اور یہ کوشش کی گئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کا اثر ہندوستان تک پہنچا۔ چنانچہ ماہنامہ
[1] ’’تقریب‘‘ مسئلہ حیات النبی از مولانا عطاءاللہ حنیف (ص 3)