کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 11
مختصر حالات مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ گوجرانوالہ
ولادت با سعادت:معتبر روایت کے مطابق 1314ھ بمطابق 1895ء میں وزیرآباد کے نواح موضع ’’ڈھونےکی‘‘ میں ہوئی، حضرت کےوالد گرامی مولانا محمد ابراہیم بھی ایک صاحب علم بزرگ اور اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے۔ چنانچہ تحفۃ الاحوذی اور مولانا وحید الزماں کا مترجم قرآن مجید (طبع لاہور) آپ ہی کے فن خوشنویسی کے شاہکار ہیں۔
ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کی درخواست پر مولانا حافظ عبد المنان وزیرآبادی نے دعا فرمائی جو مولانا کی ولادت کی صورت میں مستجاب ہوئی۔
تعلیم و تربیت:ابتدائی تربیت اور تعلیم حضرت کے والد گرامی رحمہ اللہ نے خود کی اس کے بعد اپنے ہادی و مرشد محدثِ شہیر حضرت مولانا حافظ عبد المنان رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ صرف ونحوکی ابتدائی کتابیں اسی مدرسہ کے مدرس مولانا عمر دین مرحوم۔ (م1342ھ) سے پڑھیں اور بڑی کتابیں مثلاً ابن عقیل،شرح جامی، الفیہ اور میر قطبی وغیرہ حضرت حافظ صاحب سے پڑھیں۔ حدیث از اول تا صحیحین حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمہ ہی سےپڑھی۔ اس کے بعد امرتسر میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ دہلی میں مولانا عبدالجبار صاحب عمر پوری رحمہ اللہ اور سیالکوٹ میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی علیہ الرحمہ کی خدمت میں زانوائےتلمذتہ کیا اور 24۔ 23 برس کی عمر میں جملہ علوم سے فراغت پانے کے بعد 1921ء میں حضرت مولانا ثناءاللہ امرتسری علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی علیہ الرحمہ کی تجویزکے مطابق گوجرانوالہ میں تشریف لے آئے اور تا دم واپسیں۔۔۔ تقریباً نصف صدی۔۔۔ اسی شہرمیں قرآن وحدیث کی شمع کوفروزاں رکھا۔ اللھم نور قبرہ و وسع مدخلہ۔ ‘‘
مولانا جب گوجرانوالہ تشریف لائے تھے۔ تو صرف ایک مسجدتھی اور سات آدمیوں کے وجود کا نام جماعت اہل حدیث تھا، لیکن68ء میں اپنی وفات سے چندروز بیشتر 54ویں مسجد کی بنیاد رکھی۔
درس قرآن:گوجرانولہ میں آتے ہی مولانا نے فجر کے بعد درس قرآن شروع کر دیا تھا، جوسنتالیس برس تک تواتر کے ساتھ جاری رہا۔ درس کے یومیہ سامعین دواڑھائی سو سے کم نہ ہوتے تھے۔ رمضان المبارک میں یہ تعدادپانچ چھ سو کے قریب ہو جایا کرتی تھی۔ درس قرآن