کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 109
صفحہ 500 پر رقمطراز ہیں، سیبویہ، ابو علی فارسی اور ان کے بعد زجاج یہ نسباً عجمی ہیں۔ اس کتاب میں ابن خلدون کا یہ قول ہے کہ ’’علمائے اصول فقہ اور متکلمین سب عجمی تھے اور مفسرین قرآن کی اکثریت عجمی ہے۔ عقلی علوم میں عرب قلیل اور نادر ہیں۔ اگر ان میں کوئی نسبت کے لحاظ سے عربی ہے تو لغت، تربیت اور شیوخ کے لحاظ سے عجمی ہے۔ حالانکہ ملت عربی ہے اور نبی بھی عربی ‘‘ [1]
اس حوالہ سے مولانا نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بزم طلوع اسلام کے لوگ حدیث نبوی کو عجمی سازش کہہ رہے ہیں۔ اسلام کی پوری علمی جائیداد پر عجمیوں کا قبضہ ہے۔ اس صورت میں تو گویا سارا اسلام ہی خدا نخواستہ سازشوں کے چکر میں ہے۔
اس کے بعد مولانا منصبِ رسالت نمبر کے حوالہ سے مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج میاں محمد شفیع صاحب کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں موصوف فرماتے ہیں۔ ’’میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ محدثین کی جمع کردہ احادیث کو اسلامی قانون کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ تسلیم کر لیا جائے جب تک اس کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ کر لی جائے اور یہ پڑتال بھی کسی تنگ نظری یا تعصب پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان تمام قواعد و شرائط کو بھی از سرِ نو استعمال کرنا چاہیے۔ [2]
مولانا سلفی رحمہ اللہ نے جسٹس صاحب کی بڑے اچھوتے انداز میں خبر لی ہے فرماتے ہیں۔ ’’جسٹس محمد شفیع صاحب بڑی اونچی اور مستند جگہ سے بولے تھے۔ خیال تھا کوئی تعمیری اور کام کی چیز ارشاد فرمائیں گے۔ لیکن غور فرمائیں گے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان کی معلومات پرویزصاحب کی ترجمانی اور مولوی محمد علی لاہوری کی نقالی سے زیادہ نہیں اور وہ بھی یک طرفہ، کاش وہ ائمہ سنت اور ناقدین حدیث سے براہ راست سنتے۔ ‘‘ [3]
جسٹس محمد شفیع صاحب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی بعض احادیث غسلِ جنابت اور میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے ذکر کرنے کے بعد ان احادیث پر تشکیک کا اظہار کیا ہے۔ مولانا نے جواباً ارشاد فرمایا ہے کہ اتنے بڑے منصب کے آدمی سے مہمل تنقید کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گفتگو میں عریانی اخلاقاً معیوب ہے لیکن جب ضرورت داعی ہو تو پھر یہ عریانی کا تذکرہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہو جاتا ہے۔ جس طرح زنا بالجبر کے
[1] مقدمہ ابن خلدون ص 500۔ 499
[2] منصب رسالت نمبر رسالہ ترجمان القرآن‘ لاہور ص 276
[3] حدیث نبوی کی تشریعی اہمیت ص 85