کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 108
تو کافی پرانا ہے مگر ادارہ طلوع اسلام اور حافظ اسلم جیراجپوری پہلا گروہ ہے جس نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو عجمی سازش قرا ردیا ہے۔ حضرت سلفی رحمہ اللہ نے اس پر محاکمہ کیا ہے کہ حدیث نبوی پر یہ بہتان ہے کہ اہل عجم نے اس ذخیرہ حدیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے کوئی تخریب کاری کی۔ مولانا نے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل عجم نے اپنے فاتحین کا مذہب قبول کیا پھر ان کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طورپر مطمئن ہو گئے۔ پھر ان عرب فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علماء کی سرپرستی کی۔ مولانا نے حسب ذیل عبارت ابن خلدون کی نقل کی ہے۔ ‘‘ ’’عرب بادشاہوں نے علوم کو ان لوگوں کے سپرد کر دیا جو ان کی پوری طرح حفاظت کر سکیں یہ لوگ سب عجمی اور موالی تھے اور یہ بادشاہ ان علماء کے حقوق کا پورا احترام کرتے تھے اور ان کی خدمات کی قدر کرتے تھے اور قطعی طور پر ان کو حقیر نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ ان کے علوم اور دین کے محافظ تھے۔ ‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص540) حضرت مولانا نے بڑے نادر انداز میں داد تحقیق دی ہے کہ حدیث نبوی کو عجمی سازش کہتے ہیں مگر قرآن مجید جس کے تواتر لفظی پر منکرین حدیث کا بھی اتفاق ہے۔ وہ بھی فارسی اثرات سے محفوظ نہیں۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ قرآت اور فن تجوید ہم تک سبعہ قراء کی معرفت پہنچا اور ان کی اکثریت عجمی ہے۔ یعنی جس تواتر پر منکرین حدیث کو ناز ہے اس کی کلید عجمیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے بعد آپ نے قراء سبعہ فہرست پیش فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کی اکثریت عجمی ہے۔ مثلاً (1) عبداللہ بن کثیر مکی120ھ (2) نافع بن عبدالرحمٰن مدنی169ھ (3) عبداللہ بن یزید بن تمیم ابن عامر118ھ (4) ابو عمرو بن علاء المقری البصری154ھ (5) عاصم بن ابی النجود الکوفی137ھ (6) حمزہ بن حبیب بن عمارۃ 158ھ (7) ابو الحسن علی بن الکسائی129ھ ان سات میں صرف دو عرب ہیں ابن عامر اور ابو عمرو اسی طرح ابن خلدون مقدمہ کے