کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 107
حدیث کی تشریعی اہمیت حدیث نبوی کی حجیت اور اہمیت پر حضرت مولانا سلفی رحمہ اللہ کی یہ بڑی معرکۃ آراء کتاب ہے۔ آغاز کتاب میں مولانا نے ما یحبب استحضارۃ اولاً کے عنوان سے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع ہو رہا ہے اور جس عجلت سے شائع ہو رہا ہے اور جس لب و لہجہ میں شائع کیا جا رہا ہے وہ اصحاب سنت سے مخفی نہیں اور اس کے متعلق جس قدر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو قرآن و سنت کو تاویل اور تقلید کے بغیر مانتے ہیں وہ ارباب سنت و الحدیث پر مخفی نہیں نیز اس میں جس قدر تساہل برتا جا رہا ہے وہ بھی پوشیدہ نہیں۔ زندہ جماعتوں کے لیے اس قسم کا اغماز اور تساہل جس قدر مضر ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اصحاب فکر و دانش میں حضرت سلفی رحمہ اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بےراہ روی کی اس طغیانی میں آپ سینہ سپر ہو گئے اور حدیث نبوی پر آزاد منش لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اہم مقالہ جات شائع کیے۔ حدیث کی تشریعی اہمیت کے دیباچہ میں مولانا نے تحریر فرمایا ہے کہ عدالتوں کے ذمہ دار افراد بھی بے باک ہوتے جا رہے ہیں اور حدیث نبوی کی اہمیت کو تسلیم کرنے میں متأہل ہیں۔ مولانا نے بیان فرمایا ہے کہ ان ایام میں جسٹس محمد شفیع صاحب آف لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ مولانا کی نظر سےگزرا وہ بے حدغیر معتدل اور ایسے بڑے آدمی کے علمی مقام سے بہت پست تھا۔ چنانچہ اس کا تعاقب ضروری تھا۔ اس کتاب کے آخر میں مولانا نے اس جج صاحب کی بھی خوب خبر لی ہے۔ آغاز کتاب میں آپ نے خبر، اثر، حدیث، سنت، ان اصطلاحات پر آپ نے بعض اکابرین کی عبارات پیش فرما کرتشریح و توضیح فرمائی ہے۔ ان اصطلاحات کی روشنی میں آپ نے اہل سنت، اہل حدیث اور اہل الاثر کے بارےمیں بھی اظہار خیال فرمایا ہے۔ اس کے بعد آپ نے انکار حدیث کے فتنہ کی نشاندہی فرمائی ہے منکرین حدیث کے بعض شبہات کا علمی جواب دیا ہے اور حدیث کے متعلق ظنی ہونے کے شبہ کا ازالہ فرمانے کے لیے ظن کی علمی تحقیق فرمائی ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ انکار حدیث کا فتنہ