کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 7
کے بارے میں اس کے اپنے گھر کے افراد کی گواہی بہت بڑی گواہی ہے۔ اُن کی زندگی ایک مشعل ہے جس کی روشنی میں بھٹکے ہوئے راہی صراطِ مستقیم کا سراغ پا سکتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک شمع ہدایت ہے، جس سے ایمان و عمل کے چراغ روشن کیے جا سکتے ہیں اور اسی غرض و غایت کے پیشِ نظر ان مقالوں کو مرتب کیا گیا ہے۔
حضرت والد علیہ الرحمہ کی تاریخ وفات سولہ دسمبر 1963ء ہے۔ اُنہیں دنیا سے رخصت ہوئے گیارہ برس ہونے کو آئے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُن کے سوانح حیات مرتب کرنے کا کام بہت پہلے سرانجام پا جانا چاہیے تھا، لیکن کچھ ایسے حالات پیش آتے رہے اور کچھ ایسی رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں کہ اس کتاب کی طباعت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔
ان کی وفات کے ایک دو برس بعد ہی ان پر کتاب مرتب کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
مقالہ نگاروں کی ایک فہرست مرتب کی، جس میں ان کے احباب بھی تھے، متعلقین اور معتقدمین بھی تھے، ان کے رفقاءِ کار بھی تھے، ان کے ہم عصر علماء اور سیاستدان بھی تھے اور اُن کے بعض شاگردانِ رشید بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ یہ خواہش بھی تھی کہ حضرت میاں ابو الحسن علی ندوی، ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ جن کی شخصیت مجھے عزیز ہے، کے نگارشاتِ قلم بھی کتاب میں شامل ہو سکیں۔
بہت کم مقالہ نگار ایسے تھے جنہوں نے حضرت میاں صاحب کی طرح نہایت مستعدی کے ساتھ حسبِ وعدہ مدتِ معینہ کے اندر اپنے مقالے بھیج دیے ہوں۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کا پیچھا کرنا پڑا، مگر آخر میرا دفتر ان سے مقالے لکھوانے میں کامیاب ہو گیا اور کچھ ایسے سخت جان نکلے کہ بار بار وعدے کرتے رہے اور برابر ٹالتے رہے۔ آج میں نے اپنی ہار مان لی ہے اور کتاب پریس بھیج رہا ہوں۔ اگر مقالہ نگاروں کے قلم اور وقت پر مجھے کچھ اختیار ہوتا، تو کتاب کی طباعت میں اس قدر تاخیر نہ ہوتی۔
بعض مقالہ نگار اس عرصے میں فوت ہو چکے ہیں اور حضرت والد علیہ الرحمہ سے جا ملے ہیں۔ سید رئیس احمد جعفری وفات پا گئے، پھر مولانا محی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ رخصت ہوئے۔ پھر