کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 33
کا اجلاس مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم و مغفور کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ مولانا داؤد غالباً مجلس استقبالیہ کے سیکرٹری تھے۔ وہ اس سے پیشتر قومی و ملی تحریک میں شامل ہو کر ایک ممتاز درجہ حاصل کر چکے تھے۔ ان کے بہت سے رفیق قید ہو چکے تھے اور وہ خود بھی اجلاس سے کچھ مدت بعد گرفتار ہوئے۔ مقدمہ چلا اور قید کی سزا پا گئے۔ وہ کانگرس میں بھی شامل تھے کیونکہ آزادی وطن کے لیے جہاد اُن کے نزدیک ایک اہم ملکی فرض ہی نہیں تھا، دینی فرض بھی تھا۔ وہ مجلسِ خلافت کے سربرآورہ رہنماؤں میں گنے جاتے تھے کیونکہ جزیرۃ العرب کی تقدیس اور مملکتِ ترکیہ کی حفاظت کو ایک مقدس اسلامی خدمت سمجھتے تھے اور جمیعۃ العلماء کے بھی اکابر میں شمار ہوتے تھے کیونکہ مسلمانوں کی دینی رہنمائی اس ذریعے سے بہتر طریق پر انجام پا سکتی تھی اور مذہبی تنظیم کا صحیح راستہ یہی تھا۔ پہلی قید کے بعد بھی مولانا کو بار بار دینی، ملی اور وطنی فرائض کی بجا آوری میں قید و بند کی مشقتوں سے سابقہ پڑتا رہا۔ اُنہوں نے ہر افتاد کا مقابلہ بے مثال صبر و استقامت سے کیا۔ ہر مرحلے پر وہ استقلال کی چٹان بنے رہے۔ عزیمت کی راہ پر چلنا ان کے خاندان کا ایک نہایت عزیز ورثہ تھا۔ یہ راہ اُنہوں نے زندگی بھر نہ چھوڑی۔ ہر انسان کی موت کا ایک دن مقرر ہے اور اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی، لیکن اگر کہا جائے کہ ان کی صحت انہیں قیدوں اور راہِ حق کی مشقتوں میں تباہ ہوئی، تو یقیناً یہ مبالغہ نہ سمجھنا چاہیے۔ جہادِ آزادی میں سبقت واضح رہے کہ آج یہ حالات محض ایک سر گزشت کے طور پر عرض کیے جا رہے ہیں اور یہ ایک مقالہ ہے کتاب نہیں۔ جن اصحاب نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا ہے یا خود ان مشقتوں کے خارراز سے گزرے ہیں، وہی مذکورہ بالا قربانیوں کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔ جو بھائی یہ دور گزر جانے کے بعد پیدا ہوئے یا جنہوں نے بعد میں ہوش سنبھالا، وہ محض الفاظ کی بناء پر حقیقی کیفیت کا تصور نہیں کر سکتے۔ آج فضا کا نقشہ بالکل بدلا ہوا ہے بلکہ پچیس برس پیشتر بھی اس میں خاصا تغیر پیدا ہو چکا تھا۔ لیکن