کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 32
میں اپنے اسلافِ کرام سے قریب تر تھے اور باری تعالیٰ کے لطف و کرم سے اُمید ہے کہ وہ درجے اور اجر میں بھی قریب تر ہی ہوں گے۔ جامع اوصاف شخصیت پھر اُنہوں نے اسلامی زندگی کے جس مقدس ماحول میں تربیت پائی تھی، وہ آج ناپید ہے۔ ان کا علم و فضل، ان کا فہم و ذکاء، ان کی متانت و ثقاہت، اُن کا تدبر، ان کی فقاہت، تحریر و تقریر میں یکساں شانِ دلآویزی، پھر ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھنا اور ہر دینی فرض کو انتہائی اخلاص سے انجام دینا، یہ اور ایسے دوسرے محاسن و فضائل آج ایک شخصیت میں کیونکر جمع ہو سکتے ہیں؟ کہاں جمع ہوئے ہیں؟ تربیت کی کون سی آغوش ہے جس میں یہ اوصاف فروغ پاتے اور پروان چڑھتے ہیں؟ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک مجلس، ایک انجمن اور ایک جماعت تھے۔ وہ رخصت ہوئے تو ہمیں ہوش آیا کہ ہمارے درمیان سے ایک فرد نہیں اُٹھا، جو بہرحال زندگی کے آخری مراحل میں پہنچا ہوا تھا، بلکہ انسانی خوبیوں اور اخلاصِ عمل کی زینتوں اور زیبائشوں کا ایک جمگھٹا تھا، جو اس کے ساتھ رخصت ہو گیا۔ وہ ایک شمع نہیں بجھی بلکہ اس کے ساتھ فضائل کی کئی شمعیں بجھ گئیں۔ ہم اُن کے خطبات و ارشادات سے ہی نہیں، بلکہ ان کی شخصیت سے بھی اندازہ کر سکتے تھے کہ جو بزرگ اس دنیا میں ہمارے درود سے پیشتر اُٹھ گئے، وہ کیسے تھے؟ اُن کے طور طریقے کیا تھے؟ وہ کن محاسن و محامد سے مزین ہونے کے باعث اکرام و احترام کے درجے پر پہنچے تھے۔ اب ایسے آئینے بھی شاذ ہی نظر آتے ہیں، جن میں ہم اسلاف کی صورتیں دیکھ سکتے ہیں۔ اِلا ماشاء اللہ میں نے اختصاراً جو کچھ عرض کیا، اس کا مقصد و مدعا محض یہ ہے کہ ہم سمجھ سکیں۔ مولانا سید محمد داؤد مرحوم کی شخصیت کا مقام و مرتبہ کیا تھا۔ دین و آزادی کی راہ میں قربانیاں میں نے مولانا داؤد کو سب سے پہلے نومبر 1941ء میں دیکھا جب ترکِ موالات کی تحریک ایک طوفان کی شکل اختیار کر چکی تھی اور بریڈلا ہال لاہور میں جمیعۃ العلماء