کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 31
آزادگاں بجائے رسید ندو ماہماں
زاں رہرواں کہ گردِ پس کارواں خورند
مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحوم و مغفور نے اس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جس کے نزدیک علم و فضل سب سے بڑی دولت، زہد و تقویٰ سب سے بڑا سرمایہ اور عشق کتاب و سنت گراں بہا توشہ تھا اور اسی فضا میں اُنہوں نے تربیت پائی اور یہی فضا آخر دم تک ان کے قلب و روح کے لیے بہترین آرام گاہ بنی رہی۔ ان کے جدِ امجد مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ نے حق و صداقت کی راہ میں جو مشقتیں اور اذیتیں اٹھائیں، اُن کا تصور بھی دل پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ وہ تنہا ایک طرف اور پوری مملکت دوسری طرف تھی، مگر مولانا سید عبداللہ مرحوم و مغفور کے پائے ثبات و استقلال میں خفیف سی لرزش بھی رونما نہ ہوئی۔ گھر بار چھوڑ دیا۔ وطن سے نکل آئے، عزیزوں اور خویشوں سے مفارقت گوارا کر لی لیکن جن باتوں کو وہ حق سمجھتے تھے اُن سے تمسک برابر قائم رکھا۔ یہی کیفیت اپنے اپنے وقت میں ان کے فرزندوں خصوصاً مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے والد ماجد مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ اور عمِ محترم مولانا سید عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ کی تھی۔ میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکا۔ مولانا سید عبدالوحد مرحوم کی خدمت میں بارہا حاضر ہوا۔ خدا شاہد ہے کہ ان کے فیضِ صحبت سے دل میں حبِ دین کا چشمہ اُبلنے لگتا تھا۔
یہ نہایت عزیز و گرانقدر میراث تھی جو غفوانِ شباب میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے حوالے ہوئی۔ اُنہوں نے اس کا حق ادا کرنے میں تابہ مقدرو سعی کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا۔ یہ واقفِ حال اعتراف کرے گا کہ وہ جوشِ عمل، کمال خلوص، ہمت و استقامت