کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 27
مولانا مقیم ہوئے۔ اتفاق سے جگہ بھی ملی ہوئی تھی۔ مدینہ طیبہ کے زمانہ قیام میں مولانا کو قلبی دورہ پڑا۔ ایک دو راتیں بڑے خطرے اور پریشانی کے ساتھ گزریں۔ علالت کی خبر سن کر جب عیادت کے لیے حاضر ہوا تو ان کو بڑا نڈھال پایا۔ معالجوں کی رائے تھی کہ مولانا اپنے مستقر پر واپس تشریف لے جائیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو خیریت کے ساتھ پہنچا دیا۔ اس کے بعد بھی سال ڈیڑھ سال وہ اس دنیائے فانی میں رہے (اگرچہ بیماری کے ان پر شدید حملے ہوئے لیکن وہ جانبر ہو جاتے تھے، اچانک ان کی وفات کی اطلاع ملی) نہ صرف خاندان غزنوی اور نہ صرف جماعتِ اہل حدیث بلکہ اس برِعظیم (پاکستان و ہند) کے دینی و علمی حلقے میں اور علماء کی صفِ اول میں ایک باوقار کرسی خالی ہو گئی جس کا پُر ہونا آسان نہیں معلوم ہوتا۔ مولانا کی دلآویز شخصیت، اُن کا فکری توازن اور اعتدال، اُن کے وسیع روابط، ان کی مجاہدانہ سرگرمیاں ان کا علمی ذوق، عقائد اور اپنے مسلک میں پختگی اور استقامت کے ساتھ سلف کا عمومی احترام خاندانی ذوق اور روحانی چاشنی۔ یہ سب وہ خصوصیات ہیں جن کے حامل بہت کم نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے خاندان و اخلاف کے لیے بالخصوص اور جماعت کے لیے بالعموم ایک ایسی مثال اور ایک ایسا نمونہ چھوڑا ہے جس کی پیروی اگرچہ مشکل ہے، لیکن نہایت ضروری۔ اللہ تعالیٰ ان کے جانشینوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔