کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 26
سے کہیں نہ کہیں ملنا ہو جاتا تھا اور عید کی نماز تو بالعموم انہیں کے پیچھے منٹو پارک میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ صبح کی ہوا خوری میں کہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس زمانہ میں وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’النبوات‘‘ کا مطالعہ کر رہے تھے اور اس سے بہت متاثر تھے اور متعدد مقامات کی نشاندہی فرماتے اور شیخ الاسلام کی تحقیقات کا بڑے ذوق و شوق کے ساتھ حوالہ دیتے۔ افسوس ہے کہ اپنی طالب علمانہ مصروفیت اور مولانا کی سیاسی اور اصلاحی مشغولیتوں کی وجہ سے، پھر سِن و علم میں بڑے تفاوت کی بناء پر کچھ زیادہ ہم نشینی و صحبت کا اتفاق نہیں ہوا، البتہ اُن کی بزرگانہ شفقت اور عزیزانہ محبت کا کیف ہمیشہ محسوس کرتا رہا۔
لاہور کی ایک حاضری کے موقع پر انہوں نے میری حقیر ذات کے ساتھ اپنی محبت کا خصوصی اظہار فرمایا اور دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ہال میں ایک عصرانہ کا انتظام کیا۔ اس موقع پر خیر مقدمی اور تعارفی تقریر مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے فرمائی۔ یہ ان کی بڑی کسر نفسی، خورد نوازی اور تواضع تھی اور میرا بڑا اعزاز۔
؎ کلاہ گوشہ دہقاں بہ آفتاب رسید
میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت اہل حدیث کی خصوصیات اور اس جامعیت کا تذکرہ کیا جس کا کامل مظاہرہ حضرت مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور ان کے عالی مقام رفقاء نے کیا تھا۔
اس کے بعد عرصہ تک مولانا سے نیاز حاصل نہیں ہوا۔ مئی 1962ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی دعوت پر جب حجاز حاضری ہوئی تو مولانا مرحوم سے بار بار ملاقاتیں اور یکجائی رہی، وہ بھی جامعہ کی مجلس مشاورت کے رکن تھے۔ مدینہ طیبہ میں بھی جامعہ کے جلسوں میں اور مکہ معظمہ میں بھی رابطہ عالم اسلامی کے جلسوں میں قریب ہی بیٹھنا ہوتا اور ملاقات ہوتی رہتی۔ ہم دونوں لوکامذہ مصر میں مقیم تھے، منیٰ میں بھی اسی ہوٹل کی طرف سے جہاں انتظام کیا گیا تھا میں اور