کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 25
وقت کی اکثر اہم علمی شخصیتوں سے اُنہوں نے مجھے ملایا۔ لیکن غزنوی خاندان سے دیرینہ تعلقات کی بناء پر اس خاندان کے بزرگوں سے اُن کے خصوصی روابط و مراسم تھے۔ پہلی مرتبہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ سے ملنا ہوا۔ اُن کی وجاہت، ان کا پرنور اور دمکتا ہوا چہرہ، افغانی عربی حسن و وجاہت کا دلآویز اِمتزاج، اُن کی پرکشش شخصیت اسی وقت سے ذہن میں مرتسم ہے۔ اس زمانہ میں خواجہ عبدالوحید صاحب (جواب کراچی رہتے ہیں) کے مکان پر، مجھے یاد نہیں ہر ہفتہ یا مہینہ میں ایک دو بار کسی ممتاز عالم یا کسی نامور شخصیت کی دینی تقریر ہوتی تھی۔ مختصر لیکن منتخب مجمع ہوتا تھا، جس میں زیادہ تر جدید تعلیم یافتہ حضرات ہوتے تھے۔ میں جس صحبت میں شریک ہوا اس میں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی تقریر تھی۔ اُنہوں نے سورہ بقرہ کی ان آیات پر تقریر کی: ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ﴿٨٤﴾ ثُمَّ أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٨٥﴾ ان آیات کی تفسیر کر کے انہوں نے اس کو ہندوستان کے مسلمانوں پر منطبق کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کا ایک گروہ انگریزوں کے جھنڈے کے نیچے اپنے دینی بھائیوں سے بغداد اور قط العمارہ اور ترکیہ کے میدانوں میں لڑتا تھا اور دوسرا گروہ یہاں ترکوں کے لیے چندہ کرتا تھا اور خلافتِ اسلامیہ کی بقاء و تحفظ کے لیے کوشاں تھا۔ ان کی پُر از اعتماد خطابت، متانت اور تقریر کی شستگی کا نقش دل پر قائم ہے۔ لاہور کے قیام کے زمانہ میں جس کی تقریباً ہر دوسرے تیسرے سال نوبت آتی تھی، مولانا