کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 24
تو بے اختیار یہ جی چاہتا تھا کہ سر ان کے قدموں پر رکھ دیا جائے۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ ندوۃ العلماء کے جلسہ میں شریک ہونے والے علماء اور باہر کے مہمانوں کی کسی جگہ دعوت تھی۔ ایک بہت بڑا طویل دالان تھا جس میں کئی درجے تھے، ایک طرف کے بیٹھنے والے دوسری طرف کے بیٹھنے والوں کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ایک درجہ میں مولانا سید محمد علی مونگرمی رحمہ اللہ بانی و ناظم ندوۃ العلماء شریک دسترخوان تھے، دوسری طرف ایک دوسرے درجہ میں کچھ اور مہمان تھے، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مولانا محمد علی صاحب مونگیری رحمہ اللہ نے شیروانی صاحب سے پوچھا کہ جس طرف آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس طرف اور کون کون تھا۔ انہوں نے چند معززین علماء کا نام لیا۔ مولانا محمد علی صاحب رحمہ اللہ ہر ایک نام پر فرماتے جاتے تھے کہ کوئی اور بھی تھا؟ جب انہوں نے مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی رحمہ اللہ کا نام لیا تو مولانا نے فرمایا کہ ہاں اسی وجہ سے میرا دل بے اختیار اُس طرف کھنچ رہا تھا۔ ان دونوں باپ بیٹوں کے علاوہ میں نے خاندان میں مولانا عبدالواحد صاحب غزنوی رحمہ اللہ کا بھی ذکر خیر سنا تھا، لیکن اس وقت تک اس خاندان کے کسی بزرگ کی زیارت کا موقع نہیں ملا تھا۔ 1928ء میں مولانا داؤد غزنوی صاحب رحمہ اللہ نے امرتسر سے ’’توحید‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالنا شروع کیا۔ یہ رسالہ ہمارے یہاں بھی آتا تھا، غالباً اسی سنہء کے اخیر میں اس میں مولانا محی الدین صاحب قصوری کے قلم سے ایک سلسلہ مضامین نکلنا شروع ہوا، جس کا عنوان تھا ’’تیرہویں صدی کا مجاہدِ اعظم‘‘ یہ حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کا تعارف اور ان کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرہ تھا۔ برادر معظم ڈاکٹر حکیم مولوی سید عبدالعلی صاحب مرحوم کے حکم سے میں نے اسی زمانہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا جو ’’ترجمة السيد الامام‘‘ کے عنوان سے مصر کے مشہور رسالہ ’’المنار‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد مئی 1929ء میں میں پہلی مرتبہ لاہور گیا۔ میرے پھوپھا مولانا سید طلحہ صاحب ایم اے اورئینٹل کالج میں پڑھاتے تھے۔ یوں تو لاہور کے ممتاز اہلِ علم و اہلِ ذوق سے ان کا تعارف اور ان کے تعلقات تھے اور اس