کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 198
مصائب میں اُلجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے مجھے ناکامیوں میں اشک برسانا نہیں آتا نگاہیں جن کی پڑ جاتی ہیں مستقبل کے چہرے پر اُنہیں ماضی کے افسانوں کو دُہرانا نہیں آتا آپ ان مصائب کے مقابلے پر کیسے ڈٹے رہے! اللہ اکبر مفتی محمد حسن رحمہ اللہ کا انتقال کراچی میں ہوا۔ اُن دنوں میرے دو بھائی عبیداللہ اور فضل الرحیم حج کر کے کراچی آ رہے تھے۔ مفتی صاحب اسی خیال سے کراچی چلے گئے کہ دونوں کا استقبال بھی کر لیں گے اور دوستوں سے بھی مل لیں گے۔ اس موقعے پر مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ، مفتی صاحب رحمہ اللہ کو کراچی کے سفر سے روک رہے تھے۔ ایک بار اُنہوں نے غصے سے کہا: ’’مجھے اُس ڈاکٹر سے ملائیے جس نے آپ کو اجازت دی ہے۔‘‘ پھر جب مفتی صاحب بعض اعزہ کی خواہش پر سفر کے لیے روانہ ہو گئے تو لاہور کے ہوائی اڈے پر کہنے لگے: ’’سب لوگوں نے مجھے لاہور سے نکال دیا لیکن داؤد غزنوی نے نہیں۔ وہ مجھے اب تک اجازت نہیں دے رہے ہیں۔‘‘ اُس وقت کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ سفر مفتی صاحب کا سفرِ آخرت ثابت ہو گا۔ ایک بار مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ، مفتی صاحب رحمہ اللہ سے کہنے لگے۔ میں نے بیان القرآن میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ کا ایک استنباط دیکھا جو مجھے بہت پسند آیا ہے۔ مذکورہ استنباط اس آیت کے ضمن میں تھا: ﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ﴿١٩﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا