کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 19
خشیت اللہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ میری پہلی شادی کی تقریب میں نکاح خوانی خود انہی کی زبان مبارک سے ہوئی تھی۔ میرے سر پر جو ہار یا سہرا تھا وہ اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے اُتار کر پاس رکھ دیا پھر نکاح پڑھایا۔ میرے خُسر منشی الٰہ داد مرحوم و مغفور بھی متشدد اہل حدیث تھے اور سخت درجہ پرہیزگار۔ اُنہوں نے مجھے سہرا باندھے ہوئے دیکھا تو بگڑ گئے، لیکن قابلِ ذکر چیز یہ ہے کہ یہ پھولوں کا ہار قاضی سلمان صاحب منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ نے برات کی روانگی کے وقت اپنے دستِ مبارک سے پہنایا تھا۔ برادر مرحوم مولوی محمد علی کی شادی پر وہ برات کے ساتھ فرید آباد تشریف لے گئے اور نکاح بھی اُنہوں نے پڑھایا۔ نکاح سے فارغ ہو کر ہم واپس آ رہے تھے۔ فرید آباد کے سٹیشن پر تشریف فرما تھے کہ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر آ گیا۔ اس وقت تک مولانا آزاد کا ابتدائی دَور تھا۔ میرے منہ سے آزاد رحمۃ اللہ علیہ کا لفظ سن کر فوراً بگڑے اور فرمانے لگے: ’’آزاد کیا؟ کیا مسلمان اپنے آپ کو آزاد کہہ سکتا ہے اور وہ تو عالم سنا جاتا ہے۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا کہ وہ کفر کی حکومت سے آزادی کے داعی اور مجاہد ہیں۔ مجاہدین کے معاونین کے سرخیل بھی۔ تو فوراً خاموش ہو گئے۔ رحمة الله عليه و عليٰ آبائهٖ الكرام۔