کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 18
پاک پتن کی گاڑی بہت لیٹ تھی یا شاید نکل چکی تھی تو بجائے سٹیشن پر ٹھہرا رہنے کے حضرت والد صاحب مرحوم و مغفور کا پتہ پوچھ کر ہمارے ہاں تشریف لے آئے اور والد صاحب قبلہ سے فرمایا کہ میں آپ کے صاحبزادہ مولوی محی الدین سے ملنے کے لیے آ گیا ہوں۔ واضح رہے کہ اس وقت میں پورا فیشن ایبل نوجوان تھا۔ داڑھی وغیرہ نہ تھی مگر نماز خدا کے فضل سے بطریقِ سنت ہی ادا کرتا تھا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ اہل حدیث عموماً نہایت متشدد ہوتے ہیں۔ تھوڑی سے تھوڑی چیز پر سخت سے سخت نکتہ چینی کے خوگر۔ ہم تینوں اُس وقت کے مطابق داڑھی وغیرہ منڈواتے تھے، لیکن مجھے نہیں یاد کہ ان دو تین سالوں میں آپ نے ہم میں سے کسی ایک کو داڑھی منڈوانے پر ڈانٹا ہو۔ اگر کہا تو عام اتباع سنت پر زور دیا کہ دین سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے جس کی ڈاکٹر اقبال مرحوم نے یوں ترجمانی کی ہے: بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است یا جیسے حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلافِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کسے رہ گزید کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید مجھے کبھی یاد نہیں کہ آپ نے خطبہ میں کسی قسم کی درشت نکتہ چینی کسی شخص یا کسی فرقہ پر کی ہو۔ رحمۃ اللہ علیہ و علیٰ اٰبائہٖ اور حضرت مولانا عبدالواحد رحمۃ اللہ علیہ سے تو روابط بہت زیادہ ہو گئے تھے بلکہ کئی ایک رشتے بھی باہمی ہو گئے تھے۔ انہیں علم کے لحاظ سے میں نے بہت بلند اور وسیع النظر پایا۔ خاص کر حضرت امام ابن تیمیہ اور حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہما کے تو وہ حافظ معلوم ہوتے تھے۔ خشیت و تقویٰ بہت زیادہ تھا اور ان کی گفتگو اور مواعظ بھی