کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 17
زندگی تھی۔ دنیوی خواہشات کو اس میں کوئی راہ نہ تھی۔ ﴿إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کا پورا نمونہ تھی۔ حضرت مولانا کے بعد حضرت مولانا کو دیکھنے کی سعادت تو مجھے نصیب نہیں ہوئی۔ یہ جو کچھ لکھا ہے وہ اپنے بعض بزرگوں یا دو ایک اساتذہ سے جنہیں حضرت موصوف سے تلمذ حاصل تھا (مثلاً مولانا حافظ عبدالرحمٰن۔ میرے بزرگ مولانا فضل حق اور مولانا اسماعیل) سن کر لکھا ہے، البتہ مجھے آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت مولانا عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اور ارشادات سے فیض یاب ہونے کا فخر ضرور حاصل ہے۔ مولانا عبدالاول رحمۃ اللہ علیہ تو غالباً اپنے پدرِ بزرگوار کی زندگی ہی میں وفات پا گئے تھے۔ 1906ء میں مَیں میٹرک پاس کر کے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا تو حسنِ اتفاق سے دو تین ایسے اچھے رُفقاء مل گئے جو ہم مشرب تھے اور عقائد اور اعمال کے لحاظ سے بھی منجھے ہوئے تھے۔ پہلا سال تو یوں گزر گیا۔ لیکن دوسرے سال سے تو میرا اور میرے دو دوستوں (مولوی عبدالعزیز اور منہاج الدین رجسٹرار پشاور یونیورسٹی، اب دونوں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں قبول فرمائے) اور ان دونوں دوستوں کا عام طور سے وطیرہ ہو گیا تھا کہ جمعہ کے روز کالج میں ایک آدھ لیکچر سنا اور پھر کسک گئے اور جمعہ کی نماز حضرت مولانا عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پڑھتے اور پھر دو ایک گھنٹے ان کی صحبتِ بابرکت سے فیضیاب ہو کر لاہور واپس آ جاتے۔ میرے خاندانی روابط کی وجہ سے میں خاص طور پر موردِ عنایت تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت پاک پتن تشریف لے جا رہے تھے۔ ان دنوں امرتسر سے قصور اور قصور سے پاک پتن جایا کرتے تھے بذریعہ ریل۔ اس دن اتفاقاً ایسا ہوا کہ